افضل گورو۔۔۔ تحریک آزادی کی علامت !

Feb 13, 2013

مکتوب امریکہ…طیبہ ضیا

ہفتہ کی صبح 43 سالہ افضل گرو نے تختہ دار پر اپنی زندگی کی آخری سانس لی۔چند گھنٹے قبل چیف منسٹر عمر عبداللہ نئی دہلی میں موجود تھے۔افضل گرو کو پھانسی دینے سے قبل حکومت جموں و کشمیر کو پوری طرح اعتماد میں لیا گیا اور راتوں رات افضل گرو کے ارکان خاندان،اہلیہ تبسم گرو اور چودہ سالہ بیٹے غالب گرو کو پوسٹ کے ذریعہ اس بارے میں آگاہ کیا گیا۔بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق ممبئی دہشت گردانہ حملوں میں ملوث اجمل قصاب گزشتہ برس جب پھانسی پر لٹکا دیا گیا تو اسی وقت افضل گرو کو بھی پھانسی دینے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا۔جموں وکشمیر کے علاقے میں سو پور کے رہنے والے افضل گرو کو دسمبر 2001میں انڈین پارلیمنٹ پر کئے گئے حملے کا ماسٹر مائنڈ اور جیش محمد کا سرگرم رکن کا قرار دیا گیا۔2006میں افضل گرو کی اہلیہ نے پہلی مرتبہ رحم کی اپیل دائر کی ،معاملہ عدالت میں لٹکا رہا،چونکہ پھانسی کا فیصلہ ہندو تعصب کی بھینٹ چڑھ چکا تھا لہٰذا رحم کی اپیل مسترد کر دی گئی حالانکہ راجیو گاندھی کے قتل میں ملوث ملزمان پھانسی کے پھندے سے بچے ہوئے ہیں ۔افضل گرو کو جب سزائے موت سنائی گئی ،اس وقت ارندھتی رائے اور کشمیری سیاسی جماعتوں نے آواز اٹھائی تھی کہ افضل گرو دہشت گردی میں ملوث نہیں لہٰذا اسے عدالتی انصاف دیا جائے مگر افضل گرو کو فطری انصاف سے محروم رکھا گیا۔افضل گرو کے پھانسی پر لٹکائے جانے کے بعد سارے کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔افضل گوروسے پہلے 1983میں کشمیری رہنما مقبول بٹ کو پھانسی دی گئی اور انہیں جیل کے احاطے میں دفن کیا گیا تھا۔افضل گرو کی میت بھی ان کے ورثاکے حوالے نہیں کی گئی اور انہیں جیل میں دفن کر دیا گیا۔بعض بھارتی مبصرین کا خیال ہے کہ کانگریس نے اگلے انتخابات سے پہلے اجمل قصاب اور افضل گرو کو ٹھکانے لگانے کا فیصلہ کر لیاتھا۔افضل گرو کی اچانک پھانسی سے جہاں جموں و کشمیر میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے وہاں پاکستان کی جیل میں قید بھارتی قیدی سر بجیت سنگھ کے لئے بھی مشکل پیدا ہو گئی ہے۔افضل گرو کو صفائی کا موقع نہیں دیا گیا۔وہ پیدائشی دہشت گرد نہ تھا۔میڈیکل کالج کا ایک ہونہار طالب علم اور شعرو ادب سے دلچسپی رکھنے والا نوجوان تھا۔مرزا غالب کی شاعری سے خصوصی لگاﺅ تھا ۔ انہوں نے اپنے بیٹے کا نام بھی غالب کے نام پر رکھا۔ہندوستان جیسی بڑی جمہوری ریاست میں افضل گروکے مقدمہ میں تاخیر،رحم کی اپیل کا مسترد کئے جانا اور کانگریس کا سیاسی موقع محل کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اچانک پھانسی کا فیصلہ سنا دینا ،لا تعداد سوالات اور شکو ک و شبہات کو جنم دے رہاہے۔کشمیر اور پاکستان میں ہی نہیں پورے ہندوستان میں اس فیصلے پر تبصرے ہو رہے ہیں ۔ایک چودہ سالہ یتیم کو اس کے باپ کے آخری دیدار سے بھی محروم کر دیا گیا۔افضل گورو کشمیریوں کی تحریک آزادی کی علامت ہے جس کو انصاف نہ مل سکا اور پھانسی دے کر بھارتی سرکار نے اسلام دشمنی کا کھلا ثبوت پیش کیا۔امریکہ اسامہ بن لادن کی لاش کو سمندر میں بہا دیتا ہے اور بھارت مقبول بٹ اور افضل گورو کی کی میتوں کو جیل میں دفن کر دیتا ہے۔نام نہاد طاقتیں لاشوں سے بھی خوفزدہ ہیں۔اسامہ بن لادن جیسے کردار بھی یہی طاقتیں پیدا کرتی ہیں۔دنیا کی طرح افضل گورو بھی ایک خوشگوار زندگی گزارنے کا خواہشمندتھا۔ان کا دل بھی چاہتا تھا کہ وہ اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ زندگی کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں مگران کے اطراف شب و روز مظلومیت میں پستے ہوئے کشمیری عوام نے انہیں آزادی کی راہ دکھائی اور انہوں نے تحریک آزادی کا راستہ اختیار کر لیا۔بھارت نے انہیں دہشت گردی کے الزام میں پھانسی دے کرکشمیر کاز کو پیغام دیا ہے ۔کشمیر ی رہنماﺅں کو آئے روز نظر بند کر دیا جاتا ہے۔نہتے کشمیریوں کو شہید کیا جاتا ہے۔نوجوانوں سے جیلیں بھری جاتی ہیں۔عورتوں کی عصمت پامال کی جاتی ہے۔بچوں کے گالوں پر چانٹے مارے جاتے ہیں۔ٹھڈوں سے ان کے جسم لہو لہان کر دئے جاتے ہیں۔ جو کاروائیاں نیٹو افواج عراق اور افغانستان میں کرتی چلی آرہی ہیں ، جو سلوک فلسطینیوں کے ساتھ یہودی کر رہے ہیں،وہی کاروائیاں بھارت کشمیرمیں جاری رکھے ہوئے ہے۔مسلمانوں کے نام نہاد سیکولر اور لبرل طبقے کو اب یہ حقیقت سمجھ لینا چاہئے کہ ہنودو یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے خلاف متحد ہیں ۔ فلسطین اور افغان قوم نے اپنی آزادی اپنی قوت بازو سے حاصل کی البتہ جموں و کشمیر کا المیہ یہ ہے کہ وہاں مسلہ کشمیر کو مذاکرات سے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مذاکرات سے کشمیر کبھی آزاد نہیں ہو سکتا۔آزادی کی تحریکوں کو مذاکرات اور سیاسی ساز باز کے الفاظ اپنی ڈکشنری سے نکال دینے چاہئیں ۔بھارت مصلحت اور حکمت کی زبان نہیں سمجھتا۔جس ملک میں بے گناہ کوانصاف نہ ملے ،ملزم کو اپنی صفائی میں لب کشائی کی اجازت نہ دی جائے ،زمین پر ناجائز قبضہ کر لیا جائے ، انسانوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بد تر سلوک کیا جائے ،اس سر زمین کومطالبات و مذاکرات سے نہیں ،صرف قوت بازو سے حاصل کیا جا سکتا۔جموں و کشمیر کی تمام جماعتوں کو جہاد کے پلیٹ فارم پر متحد ہونے کی ضرورت ہے ورنہ کشمیر کا ہر نوجوان افضل گورو کی طرح جیلوں کے احاطوں میں دفن کر دیا جائے گا۔

مزیدخبریں