پاپائے روم.... اور.... ”شَیخ اُلاِسلام“

الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ، تحلیل کرانے کے لئے، علّامہ طاہر اُلقادری کی درخواست پر، فیصلہ تو سپریم کورٹ نے ہی کرنا ہے، لیکن رومن کیتھلک کلِیسا اور اقوامِ عالم کی طرف سے، تسلیم شدہ، خود مختار ریاست، (Vatican City) کے سربراہ، اُسقفِ اعظم (Pope) وینڈکٹ (Vendict)کے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے اعلان نے،کم از کم مجھے، ایک عام مسلمان کی حیثیت سے شرمندہ ضرورکر دیا ہے۔ علّامہ القادری شرمندہ ہوں یا نہ ہوں، مجھے اس سے غرض نہیں۔ پوپ کو.... ”پاپائے روم“ .... بھی کہا جاتا ہے اور دُنیا بھر کے ”Cardinals“ (رومن کیتھلک کلِیسا کے سربراہ) خفیہ رائے شماری کے ذریعہ پوپ کا انتخاب کرتے ہیں۔ پوپ کا عہدہ تاحیات ہوتا ہے، لیکن عیسائیت پر کئی کتابوں کے مصنف، 85 سالہ پوپ وینڈکٹ خرابی صحت کی بِنا پر مستعفی ہوئے ہیں۔ پوپ وینڈکٹ جرمن نژاد ہیں ۔ اِس لحاظ سے اُن کے پاس جرمنی اور ویٹِیکن سٹی کی دُوہری شہریت ہے۔
جناب وینڈکٹ 2005ءمیں پوپ منتخب ہُوئے تھے اور 2005ءہی میں علّامہ طاہر القادری کو کینیڈا کی شہریت حاصل ہو گئی تھی۔ اُنہوں نے 1999ءمیں کینیڈا کی شہریت کے لئے درخواست دی تھی۔ 2002ءکے انتخابات میں موصوف اپنی ”پاکستان عوامی تحریک“ کی طرف سے اکلوتے امیدوار تھے جو قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے اور جب اُنہیں کینیڈا کی شہریت مِل گئی تو وہ قومی اسمبلی کی رُکنیت سے مستعفی ہو کر اپنے خاندان کو ساتھ لے کر پاکستان چھوڑ گئے۔ سال ڈیڑھ سال پہلے اُنہوں نے ”شَیخ اُلِاِسلام“ کا لقب اختیار کر لیا۔ علّامہ القادری عالمِ اسلام کے منتخب۔ ”شیخ اُلاِسلام“ نہیں ہیں۔ بلکہ خُود ساختہ ہیں۔ کسی بھی مسلمان مُلک کے عُلمائے اسلام ”علّامہ القادری کو، شیخ اُلاِسلام“ تسلیم نہیں کرتے۔ پوپ وینڈکٹ اگر چاہتے تو، تاحیات اپنے منصب پر فائز رہ سکتے تھے، لیکن وہ آرام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ جرمنی واپس جا کر ”غریبوں کے حق میں انقلاب“ لانے اور انقلاب کے لئے عام لوگوں کے موٹر سائیکل/سکوٹر، کاریں، مکان اور دکانیں اور نہ ہی عورتوں کے زیورات بِکوانے یا ہتھیانے کا ارادہ بھی نہیں رکھتے اور نہ ہی ”40 لاکھ لوگوں“ کے لانگ مارچ کی قیادت کرکے جرمنی کے حکمرانوں کے لئے مسائل پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
یہ کارنامہ ہمارے ”شَیخ اُلاِسلام“ نے انجام دیا۔ اسلام آباد کے ڈی چوک پر قبضہ کرکے، صدر زرداری، وزیرِاعظم راجا پرویز اشرف اور تمام وفاقی وزراءکو برطرف کیا، اُنہیں بے حیاﺅ، بے غیرتو، یزیدیو، شیطانو کہہ کر مخاطب کیا اور اُن کے عہدوں سے برطرف بھی کر دیا۔ پھر اُنہی لوگوں کے ساتھ معاہدہ کرکے اپنی مرحوم ومغفور سیاسی پارٹی ”پاکستان عوامی تحریک“ کو تسلیم کرا لیا، لیکن اہم آئینی ادارے الیکشن کمشن آف پاکستان کو تحلیل نہ کرا سکے۔ اسلام آباد کے حکمران، علاّمہ طاہر اُلقادری (عبدالشکور قادری) سے بلیک میل ہوئے یا دونوں فریقوں کے درمیان”شکورا کُشتی“ ہوئی؟۔ اِس پر بحث ہو رہی ہے، لیکن جو ”شَیخ اُلاِسلام“ اسلام آباد کے ڈی چوک پر، شیر کی طرح دھاڑ رہے تھے، چشمِ فلک نے انہیں سپریم کورٹ میں، بھیگی بِلّی یا کھسیانی بِلّی بنتے دیکھا، جب موصوف کی ملکہ کینیڈا الزبتھ دوم سے وفاداری کا سوال کھڑا ہُوا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے، علّامہ القادری کو اپنی تعریف کرنے کی اجازت نہیں دی۔ ٹوک دیا اور کہا ”آپ صرف اپنی درخواست کا قانونی جواز پیش کریں“ جب علّامہ القادری سے کہا گیا کہ....”آپ نے ملکہ کینیڈا سے وفاداری کا حلف لیا ہوا ہے“ تو اُنہوں نے کہا کہ.... ”یہ تو سوال ہی نہیں بنتا“۔ اِس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا.... ”سوال وہ ہے جو ہم پوچھیں گے“ چیف جسٹس نے کہا.... علّامہ شَیخ اُلاِسلام صاحب! ہم آئین اور آئینی اداروں کا تحفظ کرتے ہیں، ہمیں تحفظات ہیں کہ آپ نے آئینی ادارے (الیکشن کمشن) پر حملہ کر دیا ہے“۔
علّامہ طاہر القادری جنہوں نے جو 23 دسمبر 2012ءکے لاہور میں جلسہ عام سے لے کر، 14 سے 17 جنوری 2013ءتک قائدِ انقلاب“ کہلانا شروع کر دیا تھا اور اپنی ”پاکستان عوامی تحریک“ کے عہدے دار بھی نامزد کر دیئے تھے، سپریم کورٹ میں یہ موقف اختیار کیا کہ.... ”میں ایک عام ووٹر کی حیثیت سے درخواست لے کر آیا ہوں۔ اِس پر فاضل جج صاحبان نے کہا کہ.... ”آپ کو اور بیرون مُلک رہنے والے پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ہے، لیکن ایسی سیاست کا نہیں جِس سے سارے کا سارا نظام اُلٹ پُلٹ ہو جائے۔ پاکستان کے آئین کی دفعہ 5 پاکستان سے وفاداری کا تقاضہ کرتی ہے۔ پاکستان کے جو لوگ، بیرونی مُلکوں میں رہتے ہیں اُن کی شناخت پاکستانی پاسپورٹ ہے“۔ دو دِن کی سماعت کے دوران دُہری شہریت کے حامل علّامہ طاہر اُلقادری، سپریم کورٹ کو قائل نہیں کر سکے۔ فاضل جج صاحبان نے القادری صاحب پر واضح کر دیا کہ.... ”آپ کو ایسی سیاست کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ جس سے پورا ملک متاثر ہو“۔
حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا تھا کہ.... ”کوئی شخص دو آقاﺅں سے وفادار نہیں رہ سکتا“۔ کینیڈا کی ملکہ الزبتھ دوم سے وفاداری کا حلف اُٹھانے والا، قائدِاعظم ؒ کے پاکستان سے وفاداری کا کِس مُنہ سے دم بھر سکتا ہے؟۔ ”سائیاں کِدھرے تے ودھائیاں کدھرے“۔ پنجابی زبان کا یہ اکھان (مقولہ) خواجہ سراﺅں کے بارے میں ہے۔ چیف جسٹس افتخار چودھری نے خواجہ سراﺅں کو ووٹ کا حق دے دِیا ہے۔ لیکن الیکشن کمشن تحلیل کرانے کے لئے کوئی بھی خواجہ سرا ووٹر کی حیثیت سے سپریم کورٹ میں درخواست لے کر نہیں گیا۔ علامہ القادری نے سپریم کورٹ سے رجوع کرکے ”سیاسی پنگا“ لے لیا ہے۔ اب لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ اُن کی وکالت کا بھرم بھی کھل گیا ہے۔ زورِ خطابت ہر جگہ کام نہیں آتا۔
”شاعرِ سیاست“ کا ایک سیاسی ماہیا نذرِ قارئین ہے....
”دوزخ توں ڈرائی جاندا
پِیر میرا گلّاں کردا
نالے تسبیح گھُمائی جاندا“
12/11 فروری کو مختلف نیوز چینلوں پر، علّامہ طاہر القادری کو احاطہ سپریم کورٹ میں پہنچتے دکھایا گیا۔ موصوف اپنے ساتھ میں چلتے ہوئے عقیدت مندوں سے باتیں کر رہے تھے اور ہاتھ میں پکڑی ہوئی تسبیح کے دانوں کو بھی شمار کر رہے تھے۔ شاید عبادت سمجھ کر سیاست کرنے کا عملی مظاہرہ۔ مسائل زدہ لوگوں کا تسبیح کے دانوں کا نظریہ کچھ مختلف ہوتا ہے۔ بقول شاعر....
”مری صراحی سے، قطرہ قطرہ، مئے حوادث ٹپک رہی ہے
مَیں اپنی تسبیح رُوز شب کا ، شمار کرتا ہوں دانہ ، دانہ“
دو دِن کی سماعت اور اُس کے بعد میڈیا پر علّامہ طاہر اُلقادری کی Performance سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عام انتخابات میں، ووٹ ڈالنے نہیں، بلکہ گند ڈالنے آئے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن