”شرم کی بات ہے کہ سکولوں میں جانور باندھے جا رہے ہیں“ چیف جسٹس کے اس بیان کے بعد تو اب وفاقی اور سندھ و پنجاب کے محکمہ تعلیم کیلئے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ جہاں آج بھی اس ترقی یافتہ دور میں بااثر وڈیرے اور زمیندار سرکاری سکولوں کیلئے تعمیر شدہ عمارتوں کو بطور مویشی خانہ اور گودام استعمال کر رہے ہیں۔ بلوچستان اور خیبر پی کے کا تو ذکر ہی عبث ہے۔ جہاں ہمارے ”بم بردار ظالمان“ سرکاری سکول مکمل تباہ و برباد کرکے جہالت کے فروغ کا فریضہ ” احسن“ طریقہ سے انجام دے رہے ہیں۔
شکوہ تو سندھ اور پنجاب کے ان علاقوں کے ایم این اےز اور ایم پی ایز سے ہے جہاں درسگاہوں کو چراگاہوں میں تبدیل کیا گیا اور بارہا مرتبہ الیکٹرانک میڈیا پر دکھایا بھی جاتا ہے مگر ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ کیا وہ حکومت سے ملنے والے کروڑوں روپے خود ہی ہڑپ کر جاتے ہیں یا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان سکولوں میں گدھوں اور گھوڑوں کو باندھ کر وہ انہیں بھی انسان بنا دیں گے۔ جیسے ملا نصیر الدین نے کسی مدرسے کے باہر سنا کہ استاد کہہ رہا تھا اپنے شاگرد سے کہ ”ابے نامعقول میں نے تجھے گدھے سے انسان بنایا ہے“ تو ملا نصیر الدین بھی اپنا گدھا لے کر سکول آگئے اور ماسٹر صاحب سے کہنے لگے جناب! اسے بھی انسان بنا دیں۔ شاید ان علاقوں کے وڈیرے‘ چودھری‘ ایم این اے اور ایم پی اے بھی ایسے ہی سکول سے فارغ التحصیل ہیں۔
٭....٭....٭....٭
ڈالر کے 100 روپے کی حد کو چھونے کے بعد مہنگائی میں مزید اضافہ کی خبروں سے لگتا ہے ڈالر کو پر لگ گئے ہیں اور وہ مسلسل بلندی کی طرف مائل پرواز ہے اور بڑے بڑے خریدار بھی اسے صرف دیکھ رہے ہیں خریدنا تو دور کی بات ہو گی۔ بقول شا عر
اللہ ری کسادیِ بازار مصر حسن
یوسف کو ہے تلاش خریدار کے لئے
اب تو خود ڈالر کے دل میں حسرت رہے گی کہ کوئی خریدار اسے بھی ملے‘ غلط معاشی پالیسیوں اور دھڑا دھڑ ڈالروں کی لوٹ مار نے یہی یوم بد دکھانا تھا۔ کہاں مشرف کا دور کہ ڈالر 61 روپے میں بکتا تھا کہاں اب ڈالر 100 روپے کا ہو گیا۔ روپے کی اس بے قدری کا وبال اب غریب عوام کے سر آئے گا‘ مہنگائی کا نیا طوفان رہی سہی جمع پونجی کو بھی خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا‘ نہ سر پہ چھت رہے گی نہ تن پہ کپڑا‘ بھوک اور ننگ کے مارے لوگ بوریوں میں روپے بھر کر ایک پا¶ آلو یا پیاز خریدیں گے اور روپے کی بے قدری یہ محاور غلط ثابت کریگی۔
”باپ بڑا نہ بھیا سب سے بڑا روپیا“
صدر زرداری بلاول ہا¶س سے گورنر ہا¶س جاتے ہوئے منظور وٹو کو ہیلی کاپٹر میں ساتھ لے جانا بھول گئے۔ صدر صاحب کو اپنے پرانے ساتھیوں کو بھولنے کی عادت تو تھی ہی‘ مگر اپنے نئے اور قابل اعتماد ساتھیوں کو اسطرح بھول جانا حیرت کی بات ہے اب تو وٹو صاحب کہتے پھر رہے ہوں گے
ہمی کریں کوئی صورت قریب آنے کی
سنا ہے ان کو تو عادت ہے بھول جانے کی
کہیں ایسا نہ ہو کہ پیپلز پارٹی کے باقی فراموش کردہ جیالے مخلص کارکنوں کی طرح منظور وٹو صاحب بھی صاحب کے حافظے سے غائب ہو جائیں اور خاکم بہ دہن وٹو صاحب تو وزیر بھی امور کشمیر کے ہیں اور مسئلہ کشمیر بھی تو صدر صاحب اور انکی حکومت کے فراموش کردہ ایجنڈے میں سے ایک ہے۔ ورنہ یہ پاکستان کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ شکر ہے بعد میں وٹو صاحب بذریعہ کار گورنر ہا¶س پہنچے‘ پتہ نہیں انہوں نے کوئی شکوہ شکایت بھی کیا یا صرف ”ہم چپ رہے ہم ہنس دئیے منظور تھا پردہ تیرا“ کی تصویر بنے رہے۔
٭....٭....٭....٭
کابل میں امریکی فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ ان کے فوجی ساز و سامان سے بھرے 50 کنٹینر پاکستان کے راستے واپس امریکہ بھجوا دیئے گئے ہیں۔ چلیں افغانستان سے ”نکونک“ ہونے کے بعد امریکی فوجی انخلا کا عمل شروع ہو گیا اور پاکستان اس بے چاری شرمندگی کی ماری فوج کے لٹے پٹے قافلے کیلئے واپسی کی راہداری ہے۔ مشہور ہے۔
”جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں“
اس لئے امریکہ کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی شرمندہ افواج کی واپسی کیلئے پرامن راہداری کی سہولتوں کی فراہمی پر جاتے جاتے اپنے اس بھاری بھر کم فوجی ساز و سامان سے کچھ حصہ بطور نذرانہ ہی پاکستان کو تحفہ میں دے جائے تاکہ پاکستان نے اس جنگ میں جو بے بہا قربانیاں دی ہیں‘ اس کا کچھ ازالہ بھی ہو سکے۔ غالب نے شاید کسی کے نکلنے کے ایسے انداز پر ہی کیا خوب کہا تھا
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
بہت بے آبرو ہو کرتیرے کوچے سے ہم نکلے
بے آب و گیاہ پہاڑوں سخت موسموں اور تندخو قوم کی یہ سرزمین کبھی مہم جو افراد کو راس نہیں آئی اس کے سرکش قبائل نے کبھی اجنبیوں کو زیادہ دیر برداشت نہیں کیااور انہیں خوار ہو کر یہاں سے نکلنا پڑا۔ اقبال نے سچ کہا ہے ....ع
”افغان باقی کہسار باقی“
٭٭٭٭