اسلام آباد (آئی این پی+ نوائے وقت رپورٹ) وفاقی وزرائ‘ سیاستدانوں‘ سفراء اور سکیورٹی ماہرین نے کہا ہے کہ 2014ء میں افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد بھی پاکستان اور نیٹو کے مابین سٹریٹجک پارٹنرشپ جاری رہنی چاہئے‘ پاکستان کو شامل کئے بغیر افغانستان کے مسئلے کا حل ممکن نہیں‘ پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ کی بھاری قیمت ادا کی‘ یہ توقع نہیں کرنی چاہئے کہ نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد افغان نیشنل سکیورٹی فورسز ایک دم ملک کا کنٹرول سنبھال لیں گی۔ پاکستان میں قیام امن کیلئے افغانستان میں امن کا قیام ضروری ہے۔ سائوتھ ایشین سٹیبلیٹی انسٹیٹیوٹ (ساسی )کے زیراہتمام دو روزہ کانفرنس بعنوان ’’پاک نیٹو تعلقات 2014ء کے بعد‘‘ کا انعقاد کیا گیا جس سے وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر‘ شاہ محمود قریشی‘ ملک عماد خالد‘ رستم شاہ مہمند‘ ماریہ سلطان‘ جیلس وینڈر‘ ڈاکٹر عظمت حیات‘ طارق عظم‘ یونان کے سفیر پیٹروس ماورائے دیس‘ استور جیارماتی و دیگر نے خطاب کیا۔ سربراہ نیٹو آپریشنز افغانستان نک ولیمز نے کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ پاکستان سوچتا ہو گا کہ نیٹو کے ساتھ کیسے تعلقات رکھنے ہیں۔ پاکستانی حکومت یہ فیصلہ کرے کہ نیٹو کے ساتھ کیسے شراکت کی جا سکتی ہے۔ پاکستانی عوام میں نیٹو سے متعلق عدم اعتماد ہے، ہمیں ماضی سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ نیٹو عہدیداران نے کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ مشاہد حسین سید نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے معاملے میں ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی۔ حامد کرزئی کا افغانستان سے متعلق پاکستانی موقف پر اعتماد اطمینان بخش ہے۔