دنیا بھر میں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مادری زبانوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے زیادہ ذہین اور ہوشیارہوتے ہیں کیونکہ وہ نصاب کو زیادہ تیزی سے سمجھتے ہیں اور اس کے پس منظرمیں موجود حقائق سے بھی نسبتا جلد آشنا ہوتے ہیں اور یوں شرح خواندگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے -دنیا بھر میں جہاں شرح خواندگی 70فیصد سے 100فیصد تک ہے اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہاں ذریعہ تعلیم مادری زبانوں میں ہے لیکن افسوس کہ پنجاب میں نہیں اور یہ سب ہماری حکمران اشرافیہ کی دوغلی پالیسی کی وجہ سے ہے بلکہ وہ پالیسی جو انگریزوں نے پنجاب کو فتح کرنے کے بعد پنجاب‘ پنجابیت اور پنجابی کے خلاف بنائی تھی آج بھی اسی کا تسلسل ہے اور یہ اس وقت تک چلتی رہے گی جب تک کہ خود پنجابی اپنی زبان کی حفاظت اور بحالی اور اپنے حقوق کےلئے میدان میں نہیں نکلتے۔ جب تک پنجابی اپنی تہذیب و ثقافت پر فخر نہیں کریں اور زبان کی بحالی کے لئے مشترکہ جدوجہد نہیں کریں گے انہیں اپنا ورثہ میسر نہیں آ سکتا۔
یہاں ایک اور بین الاقوامی طور پر مسلمہ حقیقت تو یہ ہے کہ جہاں مادری زبانوں کو بچوں کی تعلیم کے لئے ضروری اور لازم قرار دیا جاتا ہے وہاں نصا ب کی ترتیب و تشکیل بھی اس پس منظر میں ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے ماحول میں موجود چیزوں کے ذریعے تعلیم بھی حاصل کرے اور اپنے شعوری سفر کو بھی آگے بڑھائے مگر افسوس کہ ہم کو راجہ پورس‘ دل ابھٹی‘ احمد خان کھرل کی تاریخ نہیں پڑھائی گئی تو بابا فرید‘ شاہ حسین‘ باہو‘ بلھے شاہ‘ وارث شاہ اور میاں محمد بخش کی فکری تہذیب کی تدریس بھی نہیں ہونے دی گئی یہ الگ بات کہ آج کی افراتفری اور انتشار بھی اسی کا نتیجہ ہے اور یہ انتہا پسندی اور دہشت گردی خودکش حملے اور بم دھماکے بھی اسی بے سمتی کا ہی زہریلا پھل ہے جس کی سزا غیر یقینی کی موت کی شکل میں عوام بھگت رہے ہیں اور نہ جانے کب تک بھگتیں گے۔
مجھے یہ ساری کہانی‘ سارا المیہ ایک بار پھر اس لئے یاد آیا ہے کہ بلوچستان حکومت نے مادری زبان کو پرائمری سطح پر لازمی مضمون کے طور پر پڑھانے کا قانون منظور کر لیا ہے۔ اب مادری زبان باقاعدہ مضمون کے طور پر شامل ہو گئی‘ گویا ذریعہ تعلیم توں وہاں پہلے ہی مادری زبان تھا تو یہ اس سے اگلا مرحلہ ہے جو سب سے پہلے بلوچستان نے طے کیا ہے ظاہر ہے کہ جب مادری زبان باقاعدہ مضمون کے طور پر شامل ہو گی۔ تو زبان کی اپنی تاریخ و تہذیب اور اس کے ماخذ کا بھی تذکرہ ہو گا تو زبان کی ترقی و ترویج کے لئے جدوجہد کرنے والوں کی باتیں ہوں گی۔
شاید.... یہی وہ خوف ہے جو پنجاب کے حکمرانوں کے پاﺅں میں زنجیریں ڈالے رہتا ہے اور وہ پنجاب کے عوام کو اپنی زبان اپنی ثقافت سے دور رکھے ہوئے ہیں۔ سیاسی صورتحال تو بلوچستان میں مبینہ طور پر اس سے بھی خراب ہے کہ وہاں سے سرداری نظام کے استحصال نے لوگوں کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے اس قانون کی منظوری کے حوالے سے مبارکبادکے مستحق ہیں کہ انہوں نے مادری زبان کو بطور مضمون نصاب میں شامل کرکے پہلا پتھر پھینک دیا ہے دیکھئے اب اس کی لہریں کہاں تک اس ٹھہرے ہوئے پانی کو متاثر کرتی ہیں پنجاب کے حکمرانوں میں بھی یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ مادری زبان میں ذریعہ تعلیم ہی قومی اور معاشرتی ترقی کے دروازے کھول سکتا ہے۔