اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے لاپتہ فرد خاور محمود کی بازیابی کیلئے وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت پنجاب کو مل کر کام کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے دو ہفتوں میں رپورٹ طلب کر لی ہے جبکہ کیس کی سماعت 24فروری تک ملتوی کر دی گئی۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب مصطفی رمدے نے ڈی پی او کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہاکہ ضمیر کے مطابق فیصلہ کریں گے کوئی دبائو قبول نہیں کیا جائے گا، لاپتہ فرد کی بازیابی کے لئے تحقیقات کسی ایماندار اور قابل پولیس افسر کو سونپ رہے ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے کہ بدقسمتی سے لاپتہ افراد بازیاب نہیں ہو رہے ہیں حالات بدل گئے ہیں، لوگ اپنے بیانات میں خفیہ ادارے والوں کے ملوث ہونے کا نام لے رہے ہیں، ایسے معاملات میں مشکلات ضرور پیش آتی ہیں مگر ریاست اپنی ذمہ داریوں سے انکار نہیں کر سکتی۔ وفاقی اور صوبائی حکومت لاپتہ فرد کو بازیاب کرا کر عدالت میں پیش کریں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ خاور محمود کے چچا عبدالحئی نے اپنے بیان میں آئی ایس آئی کے حوالے سے کہا ہے کہ انہوں نے ہی خاور کو اٹھایا ہے۔ آئی ایس آئی کے لوگ پہلے میرے پاس آکر مجھ سے خاور کے دوسرے بھائی عامر کا پوچھتے تھے وہ مجھے اٹھاکر بھی لے گئے تھے اور تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور بعدازاں انہوں نے چھوڑ دیا تھا۔ جسٹس جواد ایس نے کہاکہ حکومتی ادارے اس بات کو ذہن سے نکال دیں کہ لاپتہ افراد بازیاب نہیں ہوں گے۔ حالات بدل گئے ہیں اب کسی کو بغیر کسی جرم کے اٹھانا آسان نہیں اور نہ ہی اسے اپنی تحویل میں ر کھنا آسان ہوگا۔ وفاقی اور صوبائی حکومت ہر صورت میں اگلی تاریخ سماعت تک لاپتہ شخص کو بازیاب کراکر عدالت میں پیش کرے۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد عمر حیات اور عمر بخت کے حوالے سے مقدمہ کی سماعت میں عدالت میں ڈسٹرکٹ جج چکوال کی رپورٹ پر دونوں فریقین سے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت دو ہفتوں تک ملتوی کر دی گئی ہے۔