لاہور (اشرف جاوید نیشن رپورٹ) دہشت گردی کیخلاف قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد شروع ہونے کے بعد اب تک 500 انتہا پسندوں کو بھیجل بھیجا جا چکا ہے۔ ان میں سے اکثر فعال کارکن، مالی مدد فراہم کرنے والے اور عسکریت پسند تنظیموں کی حمایت کرنے والے تھے۔ پنجاب کے آئی جی پولیس مشتاق احمد سکھیرا نے ”دی نیشن“ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کو فرقہ واریت کو ہوا دینے والے عناصر کیخلاف بھی عدم برداشت کی ہدایت کی گئی ہے انہوں نے کہا قانون نافذ کرنے والے ادارے تمام مدارس کے متعلق معلومات اکٹھی کرکے دستاویزات تیار کر رہے ہیں تاہم پنجاب کے کسی مدرسے کی غیر ملکی فنڈنگ کے ثبوت نہیں ملے انہوں نے کہا کہ پولیس اور سکیورٹی ایجنسیز نے فرقہ واریت پر پوری توجہ مرکوز کر رکھی ہے اور فرقہ واریت کو ہوا دینے والے عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ پنجاب پولیس کے سربراہ نے کہا کوئی مدرسہ بھی اس بنا پر بند نہیں کیا جائے گا کہ اس کے طلبہ یا بعض اساتذہ ماضی میں کسی دہشت گرد کارروائی میں ملوث رہے اس بناءپر کسی مدرسہ کے بند ہونے کا امکان نہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ مدارس کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ آپ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کو کیوں بند نہیں کرتے کیونکہ کچھ عرصہ قبل ہی اس کے بعض طلبہ دہشت گردی میں ملوث پائے گئے تھے آئی جی نے کہا کہ ایک حد تک مدارس انتظامیہ کی یہ بات منطقی ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ پولیس کے پاس مدارس کی بیرونی فنڈنگ کے ثبوت حاصل کرنے کیلئے میکنزم موجود نہیں کیونکہ یہ سٹیٹ بینک اور وفاقی حکومت کا معاملہ ہوتا ہے یاد رہے گزشتہ ماہ سینٹ کو بتایا گیا تھا کہ ملک بھر میں 23 مدارس کو بیرونی امداد ملتی ہے ان مدارس میں پنجاب کے مدارس شامل نہیں۔ انہوں نے کہا حکومت مدارس کو وزارتی مذہبی امور کے زیر تحت لا رہی ہے اور اس حوالے سے مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق قانون میں بھی ترمیم کی جائے گی انہوں نے کہا پنجاب میں کسی بھی جگہ باقاعدہ طور پر داعش سرگرم نہیں۔ داعش کے معاملے کو ہم سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں مگر صوبے میں ایسی تنظیم کا کوئی وجود نہیں ۔ تقرریوں اور تبادلوں سے متعلق امور میں سیاسی مداخلت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر مشتاق سکھیرا نے کہا میرے فیصلوں پر کوئی دوسرا اپنا یصلے نہیں لا سکتا تاہم کسی نہ کسی حد تک سیاسی مداخلت ابھی باقی ہے۔ کرپشن کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اعتراف کیا کہ رفاہ عام کے فنڈز کا ایک بڑا حصہ پولیس افسروں کی بد عنوانی کی نذر ہو رہا ہے ہم نے پولیس افسران اور ان کے گھر والوں کیلئے مہنگے پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج کی سہولت واپس لے لی ہے اور انہیں سرکاری ہسپتالوں میں علاج کرانے کی ہدایت کی ہے۔ انویسٹی گشن کے طریقوں پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ہم قتل کے کیسوں کیلئے الگ سیل بنا رہے ہیں جو صوبہ بھر میں قتل کے معاملات کی تحقیقات کرینگے سیل کے افسران فرانزک اور سائنٹفک ٹیکنیکس کے ذریعے قتل کے مقدمات پر کام کرینگے۔ انہوں نے بتایا کہ لاہور میں 10 پولیس سٹیشنز کا انتخاب کیا گیا ہے جہاں عوامی شکایات پر فوری ردعمل کیلئے سویلین سٹاف کو بھرتی کیا جائیگا۔
مشتاق سکھیرا