ایک عام اختراع ہے کہ کسان کبھی بھوکا نہیں مرتا کیونکہ اگر فصل سے زیادہ کمائی نہ بھی ہو زمین پر اناج اُگا کر کھاسکتا ہے اور اپنے خاندان کو پال سکتا ہے اب صورت حال خاص کر ہما رے ملک میں الگ ہے سرمایہ کار یا صنعت کار کی جب بھی حکومت بنتی ہے اُس میں مزدور، کسان اور ہاری کا نقصان ہوتا ہے کیونکہ وہ قدرتی طور پر نہیں جانتے کہ ان غریب لوگوں کا رزق روٹی اور گھر کا چولہا چلنے میں کیا اہم ہے؟
آج کی خاص بات چند دن پہلے ہمارے وزیراعظم صاحب کا جملہ کہ ’’میں نے آلو پانچ روپے کلو کردیئے ہیں‘‘ واہ کیا خوب کہا ہے وزیراعظم صاحب ہمارے کسانوں کی کمر پر پائوں رکھ کر یہ اعلان کررہے ہیں اور حیرانگی آپ پر بھی ہے کہ کیسے نہیں جانتے کہ شہر کے لوگوں کو پانچ روپے آلو دینے کی وجہ سے دیہاتوں میں رہنے والے کسان بھوکے مرجائیں گے ان کے بچے نہ تو سکول جاسکیں گے نہ ہی ان کے گھر کا خرچہ چل سکے گا۔
المیہ یہ ہے کہ ہماری حکومت کی ابھی تک کوئی زرعی پالیسی نہیں ہے مختلف چھوٹے پیکج کی صورت میں شدید نقصان کے بعد کسانوں کا منہ بند کرنے کے لئے اعلانات کردیئے جاتے ہیں۔ جن کے دور رس نتائج نہیں نکلتے۔ پاکستان کا ستر فیصد آمدن زراعت پر مبنی ہے لیکن حالات یہ ہیں کہ ن لیگ کی حکومت جب بھی برسرے اقتدار آتی ہے ان کے سرکردہ تمام لوگ صنعت کا اور تاجر برادری سے تعلق رکھنے والے ہیں تو جو بھی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں ان میں کاروباری طبقے کو مراعات اور سہولتیں دی جاتی ہیں اور دیہاتوں میں بسنے والے چھوٹے کاشت کاروں کے لیے کسی قسم کا کوئی لائحہ عمل نہیں بنایا جاتا اس وقت صورت حال یہ ہے کہ یہاں سینکڑوں ٹیکسٹائل ملز بند ہوچکی ہیں حکومت کی کسان دشمنی پالیسی کی وجہ سے زراعت کا شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے اعلان کیا گیا ہے کہ پنجاب بھر میں صنعتوں کو گیس کی فراہمی بند کردی گئی ہے اب جوکہ بڑے صنعت کار ہیں وہ کسی نہ کسی طرح اپنے یونٹ چلالیں گے لیکن چھوٹے یونٹ کے مالک کے پاس فیکٹریاں بند کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔
ملک میں ٹیکسٹائل کا 60 فیصد پنجاب سے برآمد کیا جاتا ے اگر پنجاب کی صنعتوں پر گیس نہ ملی تو 80 کروڑ لوگوں کا نقصان ہوگا۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اور اس سے وابستہ تقریباً 35 لاکھ افراد ہیں جن کا روزگار بند ہونے کا خدشہ ہے کپاس کی فصل کی تباہی کی وجہ سے صرف جنوبی پنجاب میں پیداوار تقریباً 40 فیصد کم ہوئی ہے اور صرف پنجاب میں 2 لاکھ مزدوروں کو فارغ کیا گیا ہے کسانوں کی مشکلات کو بڑھادیا گیا ہے اور یوریا کی بوری کو 1700 سے 2000 کا کردیا گیا ہے چاہیے تو یہ کہ ہم کسانوں کو ریلیف اور سبسڈی دیں ان کو پانی کھاد اور بجلی میں رعایت دی جائے لیکن ہمارے ہاں روزکھاد کی قیمت بڑھا دی جاتی ہے تاکہ کسانوں کی فی ایکڑ پیداوار کی لاگت بڑھ جائے جس آلو کی پیداوار پر آٹھ روپے فی کلو کاشت کار کا خرچہ ہوا ہے، ا سکو ہمارے حکمران 5روپے پر بیچ رہے ہیں۔
آلو کی فصل میں نقصان کی وجہ سے چھوٹے کاشتکاروں کے پاس اگلی فصل پر خرچہ کرنے کے لیے پیسے نہیں فی بوری 500روپے کا نقصان ہو رہا ہے ملکی ترقی کسانوں کو ریلیف دینے میں ہے ، حکومت کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کا چاول جو کہ دنیا میں نمبر 1 پر تھا، اس وقت انڈیا اور تھائی لینڈ کا مقابلہ نہیں کر پا رہا۔
بیرونی منڈی میں ان کے چاول سستا ہونے کی وجہ سے زیادہ بک رہے ہیں کیونکہ یہ ممالک اپنے کسانوں کو سبسڈی دیتے ہیں اور ان کی پیداواری لاگت ہوتی ہے پاکستانی کاشت کار کا کیونکہ خرچہ زیادہ ہوتا ہے اس لیے جب وہ جنس عالمی مارکیٹ میں لے کر جاتا ہے تو اس کو کم لاگت میں فروخت نہیں کر سکتا، ہمارے پاس اس وقت غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر انتہائی کم رہ گئے ہیں اور ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے برآمدات کو بڑھائیں لیکن ملک میں زراعت کی صورت حال ابتر ہے ہمارے ملک کی افرادی قوت 43 فیصد زراعت سے وابستہ ہے ان لوگوں کی حالت دگر گوں ہے بذات خود ایک کسان کی بیٹی ہونے کی حیثیت سے میں ان کا دکھ اور ان کا درد محسوس کر سکتی ہوں، میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ کسان کے گھر میں ہر کام میں فصل کا انتظار ہوتا ہے۔ شادی بیاہ، بچوں کی سکول فیس چونکہ آمدن لگی بندی ہوتی ہے اس وجہ سے ایک فصل میں بھی اگر نقصان ہو جائے تو پورا سال بھر اس کا ازالہ ممکن نہیں ہوتا۔ …؎
گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی
٭…٭…٭