’’نظروں سے اوجھل لوگ ‘‘ اور میاں رضاربانی ‘‘

فائیو سٹار ہوٹل کا ہال سامعین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا یہ اپنی نوعیت کی کتاب کی رونمائی کی منفرد تقریب تھی جس کا کوئی مہمان خصوصی تھا اور نہ ہی کوئی صدارت کر رہا تھا بلکہ سٹیج پر خالی نشستیں ’’ نظروں سے اوجھل لوگ‘‘ (invisal people)براجمان تھے تقریب کی اگلی صفوں میں سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق ‘ سینیٹ میں قائد ایوان راجہ محمدظفر الحق ‘ سابق چیئرمین سینیٹ نیر حسین بخاری ،سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف ‘ ، وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار ‘ وفاقی و زیر قانون زاہد حامد،محمود خان اچکزئی ‘ سینیٹر طلحہ محمود ، سینیٹر ساجد میر ‘ سابق و زیر اعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ ‘ سینیٹر پرویز رشید ، سینیٹرمشاہد اللہ خان ‘ ارکان پارلیمنٹ ‘ ادیبوں اورذرائع ابلاغ کے نمائندوں ایک بہت بڑی تعداد موجود تھی جب کہ’’ صاحب کتاب‘‘ میاں رضا ربانی پچھلی نشستوں پر کھڑے ہو کر تقریب کی کارروائی سے لطف اندوز ہو رہے تھے انہوں نے کتاب کے عنوان کے حوالے سے تقریب کی صدارت کا اعزاز بھی ’’آنکھوں سے اوجھل لوگوں ‘‘ کو دیا یہ تقریب قوم پرست بائیں بازو کے لیڈر میاں رضا ربانی کی ’’مختصر کہانیوں‘‘ پر مشتمل کتاب کی پذیرائی کے لئے منعقد کی جا رہی تھی تقریب کوجہاں پارلیمنٹیرینز کی بہت بڑی تعداد نے رونق بخشی تھی وہاں بائیں بازو کے ’’ترقی پسندوں ‘‘ نے بھی میاں رضا ربانی سے اظہار یک جہتی کے لئے اپنی شرکت کو یقینی بنایا تھا تقریب کا ایک خوبصورت پہلو یہ بھی تھا تقریب میں ماسوائے سینیٹر تاج حیدر کے ، تمام ’’ تقاریر اور مقالے ‘‘ غیر سیاسی لوگوں کے ہی تھے لیکن یہ’’غیر سیاسی مخلوق ‘‘ اپنی تقاریر اور مقالوں میں ’’سیاسی تڑکا‘‘ لگائے بغیر نہ رہ سکی میں اس بات کا برملا اعتراف کرتا ہوں میرا تعلق اس مکتبہ فکر سے ہے جسے بائیں بازو کے دانشور اپنی ’’سوچ ‘‘ کے فروغ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں دائیں بازو کو’’ گالی‘‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں میاں رضا ربانی بائیں بازو کے ایسے لیڈر ہیں جنہوں نے ترقی پسند سوچ رکھنے کے باوجود اپنی شخصیت کو لادینیت سے آلودہ نہیں ہونے دیا سالہاسال سے پارلیمنٹ کی مسجد میں ہم دونوں ایک ہی امام کے پیچھے نماز جمعہ میں رب العزت کے حضور سربسجود ہوتے ہیں اور شاید ان کی اس ادا نے ہی میرے دل میں ان کی عزت و توقیر میں بے پناہ اضافہ کیا ہے پیپلز پارٹی میں اچھے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو در اصل پیپلز پارٹی کی حقیقی پہچان ہیں ان میں میاں رضا ربانی کا نام نمایاں ہے ۔
زمانہ طالبعلمی میں ’’ بغاوت ‘‘ ان کی سرشت میں شامل ہو گئی تھی جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں انسانی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے کے ’’جرم‘‘ میں انہیں 1981ء میں کراچی یونیورسٹی سے نکا ل دیا گیا تھا 1953ء میں لاہور میں جنم لینے والے رضاربانی کا خاندانی پس منظر اس قدر شاندار ہے جس نے ان کی شخصیت کو جلا بخشنے میں کلیدی کردار ادا کیا ان کے والد محترم عطا ربانی کوپاکستان کے پہلے گورنرجنرل کے اے ڈی سی جی کے فرائض انجام دینے کا اعزاز حاصل ہے میاں رضا ربانی حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں انہوں نے ایوان بالا میں شاندار تقاریر کی ہیں جارحانہ انداز تخاطب ان کی شخصیت کا حصہ ہے یہی وجہ ہے چیئرمین سینیٹ کے منصب پر فائز ہونے کے باوجود ’’جارحانہ‘‘ انداز ختم نہیں ہو سکا کئی سالوں کے بعد ایوان بالا کو ایک ایسا چیئرمین ملا ہے جو ڈسپلن پر کوئی کمپرو مائز کرتا ہے اور نہ ہی کسی کو قانون وقواعد وضوابط سے باہر کھیلنے دیتا ہے مقررہ وقت پر سینیٹ کا اجلاس شروع کرنے کی انہوں روایت ڈالی ہے اور ہر روز کا ایجنڈا نمٹانے کے لئے پہروں تھکادینے والی اجلاس کی کارروائی بھی پارلیمانی تاریخ کا حصہ ہے بعض اوقات ان کی ارکان کو ’’ڈانٹ ڈپٹ ‘‘ سے ’’ مانیٹر‘‘ کا گماں ہوتا ہے اپنی افتاد طبع کے باعث محترمہ بے نظیر بھٹو کے ’’سیاسی وارث‘‘ آصف علی زرداری سے ان کی کبھی نہیں بنی ۔ انہوں نے مسلم لیگ(ق) کے ساتھ وفاقی کابینہ میں بیٹھنے سے انکار کر دیا جب اپوزیشن جماعتوں نے میاں رضا ربانی کو چیئرمین سینیٹ بنانے کی صورت میں پیپلز پارٹی کا چیئرمین قبول کرنے تجویز پیش کی تو آصف علی زرداری کو اس پیشکش کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہا۔12مارچ2015ء سے اب تک ان کی چیئرمین شپ کو دوسال ہونے کو ہیں انہوں نے جہاں ایوان بالا میں اعلی روایات قائم کی ہیں وہاں انہوں نے عوامی مسائل کے حل کے لئے ایوان بالا کو پورے ایوان کی کمیٹی میں تبدیل کر کے عوامی عدالت لگانے کا ایک نیاتجربہ کیاسینیٹ کی راہداریوں کو آئینی اور جمہوری جدو جہد کی تصاویر اور تاریخی حوالوں سے مزین کر کے قابل قدر کام کیا ہے انہوں نے تاریخی رولنگ دی ہیں چیئرمین سینیٹ کی حیثیت سے جہاں پارلیمنٹ کی بالا دستی کو قائم رکھا وہاں اس کے ارکان کی طرف ’’ غیر مرئی‘‘ قوتوں کے اٹھنے والے ہاتھوں کو روکنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے کل ہی کی بات ہے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفورحیدری کو امریکہ کا ویزہ نہ دینے پر سینیٹرز کو امریکہ جانے سے روک دیا امریکی حکومت کی وضاحت تک سینیٹ ،مجالس قائمہ یا سینیٹرز کی جانب سے سرکاری طور پر کسی امریکی و فد،رکن کانگریس یا سفارت کار کا خیرمقدم نہیں کیا جائے گا نہ کوئی سینیٹرامریکی سفارتخانہ کی تقریب میں شرکت کرے گا میاں رضا ربانی کے اس جراتمندانہ اقدام نے ان کی عزت و توقیر میں اضافہ کر دیا ہے ان کی آئین میں 18ویں ترمیم اور قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے شاندار خدمات کے صلے میں انہیں نشان امتیاز عطا کیا گیا سیاست کی پرخار وادی میں گم ہوجانے والے متعدد سیاست دان اپنے اندر پائی جانے والی ادبی صلاحیتوں کو دبا دیتے ہیں لیکن میاں رضا ربانی نے اپنے اندر کے ادیب کو مرنے نہیں دیا ۔ انہیںجب بھی موقع ملا انہوں اپنے جذبات و احسات کو قرطاس پر منتقل کر دیا پاکستانی وفاقیت کی سوانح عمری ،ایل ایف اوآئین پر ایک فراڈ ان کی کتب شائع ہو چکی ہیں لیکن انہوں نے (invisible people)تحریر کر کے ان لوگوں کی بات کی جن کی کوئی بات نہیں کرتا ، ان کا ذکر سعادت حسن منٹو کے افسانوں میں آتا ہے حبیب جالب کی شاعری میں ان کی داستان غم سنائی دیتی ہے میاں رضا ربانی نے اپنے جذبات و احساسات کو قرطاس پر منتقل کرنے کا جس زبان کا سہارا لیا ہے وہ پاکستان کی ’’اشرافیہ‘‘ کی زبان ہے اسے عوامی زبان میں لوگوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے رمضان ساجد نے (invisible people)کا ترجمہ’’ نظروں ‘‘ سے اوجھل لو گ‘‘ کیا ہے جب کہ کچھ دوستوں نے اسے ’’غیر مرئی لوگ‘‘ کا نام دیا ہے میاں رضاربانی نے کہا ہے کہ زندگی کی بعض حقیقتیںپاکستان کی اشرافیہ کو نظر نہیں آ رہیں۔ حالانکہ یہ تلخ حقیقتیںہماری روزمرہ زندگی میں سامنے نظر آتی ہیںاور ان حقیقتوں نے انہیں مجبور کیا کہ وہ معاشرے کے ان نظر انداز ، پسے اور غربت اور مایوسی کے مارے پاکستانیوں کی جذبات کی عکاسی مختصر کہانیوں کے مجموعے کی صور ت میں کریں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ’’ میں کوئی لکھا ری ہوں اور نہ ہی کوئی فلاسفر لیکن اپنی کتاب میںاس طبقہ کی بات کی ہے جس کا تذکرہ بہت کم کیا جاتا ہے اور ان کی زندگی کی باتیں خبریت کی حامل نہیں سمجھتی جاتیں ، میں نے غریب اور محروم طبقات کے حوالے سے جو کچھ محسوس کیاہے ان کو تحریر کر دیا ہے۔ آج مختلف چوکوں میں بھیک مانگنے والے بچوں پر ’’اشرافیہ‘‘ کی نظر نہیں جاتی۔ ان بچوں کے پیچھے کس مافیا کا ہاتھ ہے جوان کے ہاتھ پائوں توڑ کر بھیک مانگنے کے لئے استعمال کر رہا ہے لیکن اشرافیہ اور کسی کو یہ سب نظر نہیں آ رہا ، محروم اور مظلوم طبقہ انصاف کے لئے در بدر ہو جاتا ہے لیکن انصاف نہیں ملتا جبکہ ’’اشرافیہ ‘‘کے لوگ عدالتوں سے بری ہو جاتے ہیں ۔ زندگی کی یہ حقیقتیں ہیں اورپاکستان ہے جو اشرافیہ کو نظر نہیں آتیںمیاں رضاربانی نے صحافیوں سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ’’ آج ان کے پاس دینے کے لئے کوئی خبر نہیں ہے ۔ کیوں کہ اپنی کتاب میں انہوں نے ان لوگوں کا تذکرہ کیا ہے جواصل پاکستان ہیں لیکن خبریت کے قابل نہیں اس لیے انہوں نے ان کی کہانی بیان کرنے کے لئے ادب کا سہارا لیا ہے اور ادب خبر نہیں ہوتا واقع ہوتا ہے جو زندگی کی حقیقت اور سچائی کو بیان کرتا ہے انہوں نے کہا کہ ’’میری کہانیوں کے کردار نے میری انگلی پکڑ کر کہا کہ چلو میری زندگی کو دیکھو اور میری کہانی لکھو۔ ایک مزدور ہسپتال کے باہر پڑا ہے اور ہسپتال میں اسے جگہ نہیں مل رہی اور اس کی بچی معالج کو تلاش کرتی پھر رہی ہے‘‘۔ ایک دوسری کہانی میں انہوں نے ان بچیوں کا ذکر کیا ہے جنہیں اغواء کرکے فحاشی اور عریانی کے اڈوں پر پہنچا دیا جاتا ہے ۔انہوں نے اپنی کتاب میں ایک مظلوم عورت کی کہانی لکھی ہے جس کا بچہ سائیکل چوری کے الزام میں گرفتار ہو جاتا ہے لیکن وہ دربدر کی ٹھوکریں کھاتی ہے لیکن اس کو انصاف نہیںملا۔ میز بان نے صدارت کے لیے نظروں سے اوجھل لوگوں کو مدعو کیا تھا۔ اور کچھ دیر تک لوگ خالی کرسیوں کی طرف دیکھتے رہے ۔ ایسا لگ رہا تھاکہ میزبان ان کو دیکھ سکتا ہے۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ کسی پروگرام کی صدارت نظروں سے اوجھل لوگوں نے کی ایک ادیب نے کہا کہ جہاں سعادت حسن منٹو نے کہانی چھوڑی تھی رضاربانی نے اسے وہاں سے آگے بڑھایا ہے (invisible people)’’نظروں سے اوجھل لوگ ‘‘کی تخلیق سے جہاں میاں رضا ربانی کی تخلیقی صلاحیتوں کا سب کو علم ہوا ہے وہاں وہ اس نظام سے ٹکراتے ہوئے نظر آتے جس کا وہ بھی حصہ ہیں ان کی یہ کاوش یقیناً انگریزی ادب کا شاہکار ہے جو اردو زبان میں توجہ کا منتظر رہے گا۔

ای پیپر دی نیشن