”اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے“

ساجدہ حنیف(نیڈل آرٹسٹ )
جب اشفاق صاحب حیات تھے تو اتفاقاً میں اپنی بیٹی کے ساتھ ”خواتین بزم اقبال“ اقبال اکیڈمی کی مجلس کی رپورٹ دینے گئی تو میں نے سرفراز سید صاحب کا کسی سے پوچھا کہ مجھے ملنا ہے۔ لڑکا مجھے اُن کے پاس چھوڑ آیا۔ سرفراز صاحب اخبار چھوڑ کر میرے ساتھ ادبی باتیں کرنے لگے۔ اتنے میں انہوں نے مجھے ایک دعوت نامہ دیا اور تاکید کی اس تقریب میں ضرور تشریف لائیں۔ جی میں اپنی دوستوں کو بھی لاﺅں گی۔گھر آکر لفافہ دیکھا تو پریس کلب کا ایڈریس لکھا ہوا تھا۔ خیر اپنے بیٹے سے پوچھ کر چار پانچ سہیلیوں کو تیار کیا۔ بیٹے نے کہا پہلے پڑھ تو لیں ہے کیا۔تو کراچی سے ایک ضعیف العمر صحافی یا شاید مصنف کی کتابوں کی رونمائی تھی۔ چونکہ میں ابھی اتنا ادب کو ادبی لوگوں سے واقف نہیں تھی۔دعوت نامہ پر جب پڑھا مہمان خصوصی جناب اشفاق احمد ہیں تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی کیونکہ اُن کو صرف میں نے ٹی وی، اخبار اور ریڈیو پر سنا تھا۔ ڈرامے خوب دیکھتی یہاں تک کہ اُن دنوں گلیاں بازار سنسان ہو جاتے تھے۔ کہیں کہیں ٹی۔وی نظر آتا۔ لوگ دکانوں میں یا دوسرے یار دوستوں کے گھر جا کر ایک حقیقت سو افسانے۔ ایک محبت سو افسانے۔ میں نے اپنی سہیلیوں کو بتایا تو وہ چار کی بجائے چھ تیار ہو گئیں۔ بھئی چلو۔ یہ صرف ایک ہی دعوت نامہ ہمارے لئے ہے۔میں تو اشفاق صاحب درویش انسان کی باتیں سننے گئی تھی۔ جب چائے کا وقت ہوا تو سرفراز سید صاحب نے تعارف کرواتے ہوئے مجھے پاس بیٹھا دیا۔ شاہ صاحب یہ ایوارڈ یافتہ آرٹسٹ ہیں۔اشفاق صاحب نے کہا کیا آپ کے پاس تصویر کی فوٹو ہے۔ جی۔ شاید۔ اتفاقاً ایک تصویر نکل آئی۔ انہوں نے جب ”پنجاب کا کلچر وہ بھی دیہاتی“ سوئی دھاگے سے تیار دیکھا تو جھٹ بولے۔ اس پر اپنا نام پتہ اور فون نمبر لکھ دیں۔ میں بانو کو دوں گا۔چند یوم بعد مجھے بانو قدسیہ کا مختصر سا خط ایک طرف سبز رنگ سے اللہ آسانیاں پیدا کرے لکھا ہوا اور دوسری جانب شکریہ اور اپنا نام لیکن اِس کے ساتھ ایک عدد خوبصورت خط مجھے مخاطب ہو کر لکھا ہوا۔ میں نے ہینڈ میڈ کارڈ کی ایک طرف شکریہ ادا کیا۔ اب ہماری ہلکی پھلکی قلمی دوستی ہو گئی۔چند یوم بعد لاہور ”عجائب گھر“ میں میرے آرٹ کی سولو نمائش تو میں نے بانو آپا سے اجازت لی کہ اسے اپنے بروشر میں شائع کروا لوں۔ بڑے لوگوں میں غرور نہیں ہوتا بلکہ حوصلہ افزائی کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہوں نے اجازت دے دی۔ اگلے ہفتے میں نے گورنمنٹ کالج کے اکنامکس لیکچرار کے ہاتھ ایک بروشر بھیجا اور بانو آپا سے گزارش بھی کی تشریف لائیں تاکہ اگر کوئی کمی بیشی رہ گئی ہو تو میرے رہنمائی ہو سکے۔میرے بیٹے سے کہا طبیعت ٹھیک اور وقت ملا تو ضرور آﺅں گی لیکن میری قسمت میں کہاں لکھا تھا کہ اُن کی ایک جھلک بھی دیکھ سکتی۔ میرے دونوں بیٹوں اور بیٹی کو اُن کی لکھی گئی کتاب راجہ گدھ بہت پسند آئی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ای پیپر دی نیشن