ذہن میں خیالات کا ہجوم ہے کہ امنڈا چلا آ رہا ہے،نت نئی باتیں ہیں اور کچھ بحثیں ہیں جو چند دنوں سے ذرائع ابلاغ اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر چل رہی ہیں،نیوز چینلز پر شام سات سے بارہ بجے درگت بنوانے کے بعد اگر کوئی چند لمحے کام کی چیز دیکھنا یا جاننا چاہے تو جس جگہ جائیں نیوز چینلز کی’ فخریہ‘ پیشکشوں پر مبنی ’’ٹوٹے‘‘ موجود ہوتے ہیں،’واٹس ایپ‘کی مصیبت بھی جان کو آئی ہوئی ہے، افواہیں پھلانے کا کام اسی پر شدت سے ہوتا ہے، غرض آدمی کہاں جائے،ہر جانب ہم رنگ زمین جا ل پھیلا ہوا ہے اور شکاری تاک لگائے بیٹھے ہیں،جس کو دیکھو وہ ’’حق اور سچ‘‘ کا دعویدار ہے،مگر یہ سارے کا سارا دوسروں کے بارے میں ہے،غازہ کے پیچھے چھپائے اپنے داغ کی کوئی بات نہیں کرتا، دل میںایک افسردگی بھی ہے،بڑی قانون دان عاصمہ جہانگیر اور بڑے فنکار قاضی واجد انتقال کر گئے،دونوں اپنے اپنے شعبوں میں یکتا تھے،اس صورت میںلکھنا بھی کاردارد بن جا تا ہے،دو روز ہوئے ایک بڑے بزنس مین سے ملاقات ہوئی ،ان سے پوچھا کہ سنا ہے کہ کالادھن سفید کرنے کی سکیم آنے والی ہے ،اس کے خدوخال کیاہونا چاہئے؟مسکرائے اور کہنے لگے،سارا ایشو دیانت کا ہے،اور واقعہ سنایا،کہ چار سال پہلے ایک’’بڑے‘ نے این آئی ٹی کے ایکویٹی فنڈ میں دس کروڑ روپے انویسٹ کر دیئے،بس اس کے بعد سٹاک مارکیٹ کی راہ کی ہمواری بڑھناشروع ہوئی،جب دس کروڑ ،چالیس کروڑ بن گئے تو ایکویٹی میں سے ان کا پیسہ نکل گیا اور سٹاک مارکیٹ کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی گفتگو میں اچانک شدت آئی اور اقدامات بھی ہو گئے،اب کالا دھن باہر ہے یا ملک کے اندر، ان ہی لوگوں کا ہے، تو سکیم لانے کے لئے کیسے دلائل کے پہاڑکھڑے کئے جارہے ہیں،یہ جو ریگولیٹری ڈیوٹیز میں کمی لائی گئی اس میں بھی گڑبڑ ہے،دیانت سے اگر ایمینسٹی سکیم کاکام نہ کیا گیا تو اس سکیم کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا،بزنس مین کی یہ باتیں سن کر سوچ میں پڑ گیا،ایسی سکیم جو جامع ہو ،کیا ملک کو فائدہ دے گی؟یہ سوال بہت ہی اہم ہے،اکثر یہ بات زبان زد عام رہتی ہے کہ ملک میں غریب کے لئے ایک قانون اور امیر کے لئے دوسرا قانون ہے،جب ایسی سکیم لائی جاتی ہے تو ان سے عوامی سطح پر کی جانے والی بات کی تصدیق ہو جاتی ہے،یعنی ایک غریب اگر چند پیسے ادھر ادھر کر دے،یابجلی ،گیس کا بل وقت پر ادا نہ کرئے،تو قانون بڑی بے رحمی سے حرکت میں آجاتا ہے،مگر اس ملک کا امیر، وسائل چوری کر کے ملک کے اندر رکھے یا باہر لے جائے تو اس کو ملکی مفاد کے نام پر ایمنیسٹی دی جاتی ہے ،یہ بہت ہی ناانصافی کی بات ہوتی ہے،یہ ان قانون کا احترام کرنے والوں کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے جو ٹیکس ادا کرتے ہیں اور اگرچند روپے کا ٹیکس وقت پر نہ دیں تو ان کی پراپرٹیز سر بمہرکر دی جاتی ہیں،ان کے نام ای سی ایل پر ڈال دیئے جاتے ہیں، بڑے افسوس کا مقام ہے کہ ملک کے وزیراعظم ،مشیر خزانہ دن رات کالا دھن رکھنے والوں کی وکالت میں لگے ہوئے ہیں،ایسا کرنا ہے تو پہلے ملک کی جیلوں میں قید سارے ٹیکس چور رہا کر دیں اور مقدمے ختم کر دیں،ان کو بھی ایمنسٹی ملنی چاہئے کیونکہ یہ پھنس گئے ہیں،یہ نچلے درجے کے قانون شکن ہیں ،جو بڑے چور ہیں اور آزاد ہیں، ان کو تو عزت دینے کے لئے اہتمام کیا جا رہا ہے،تو ان پھنسے ہوئوں کی بھی گلو خلاصی ہونا چاہئے،ایسے ماحول میں جب ایک وزیر اعظم کی اس طرح کے معاملہ میں رخصتی ہوئی ہو ، حکومت کو ایسے کام میں نہیں پڑنا چاہئے ،بہتر یہی ہے کہ اس ایشو پر فیصلہ کو آئندہ حکومت پر چھوڑ دیا جائے،ساڑھے چار سال تو ٹیکس نظام کو شفاف،ایف بی آر کو کرپشن فری،اور دوستانہ ماحول بنانے کے لئے کچھ نہ کیا گیا،جو ایف بی آر میں بیٹھے بادشاہ لوگ کہتے رہے وہی ہوتا رہا ،ودھ ہولڈنگ ٹیکسوں سے ریونیو کی گروتھ حاصل کی جاتی رہی، تیل پر ٹیکسوں کا حصول ایک کمیشن کی تحقیقات کا متقاضی ہے،ٹیکس کی شرحوں کو گھٹایا نہیں گیا ،جی ایس ٹی کو سولہ سے سترہ فی صد کیا گیا ،اب سالہا سال کے کام چند ماہ میں کرنے کی کہانیاں سنائی جا رہی ہیں،اسے الیکشن سٹنٹ ہی کہا جائے گا،ان چند ماہ میں ایسی چیزیں مسلط نہ کی جائیں جس سے آئندہ کی حکومت کے ہاتھ بندھ جائیں،تاہم اگر کچھ کرنا ہے تو ایف بی آر کو بدلیں ،اس کے اندر ساری خرابی ہے،اگر پاکستانیوں کے اربوں ڈالر باہر ہیں یا ان کی پراپرٹیز ہیں تو ان کے نام قوم کے سامنے آنے دیں،آئندہ چند ماہ میں جب معلومات کا حصول ہونا شروع ہو گا تو اس غبارے سے بھی ہوا نکل جائے گی،اس وقت کو آنے دیا جائے تاکہ قوم جان سکے کہ کس کا کتنا پیسہ اور کس ملک میں ہے،حکومت اگر ایمنسٹی سکیم لانے پرکسی دبائو کی وجہ سے مجبور ہے تو اس کے ساتھ چند شرائط ڈالنا ہوں گی،ملک کے منتخب ایوانوں جن میں بلدیاتی ادارے بھی شامل ہوں،کے ماضی یا آج تک رکن رہنے والوںاور ان کے زیر کفالت افراد کو اس کے دائرے سے نکالا جائے،اس سکیم میں اپنے اثاثے ظاہر کرنے والوں پر کسی بھی منتخب فورم کی رکنیت پر پابندی ہونا چاہئے،بیورو کریٹ یا ان کے زیر کفالت افراد اگر اس سے استفادہ کرتے ہیں تو ان کو ملازمت سے الگ کرنے کی ضرورت ہو گی،تاکہ ایسے لوگ دوبارہ لوٹ مار نہ کر سکیں،یہ سکیم کم از کم اس وقت تک نہ لائی جائے جب تک قوانین کو سخت نہیں کیا جاتا،اور کالادھن رکھنے والوں کویہ پیغام نہیں جاتا کہ اب آخری موقع ہے اس کے بعد دولت ضبط بھی ہو گی ،اس انداز سے تیاری کے بعد سکیم ٓاتی ہے تو کچھ مل جائے گا ورنہ اس کا حال بھی ماضی کی سکیموں جیسا ہی ہو گا ،پہلے ہوم ورک کرنا انتہائی ضروری ہے،اس لئے عقل کا تقاضا یہی ہے کہ اس معاملہ پر ابھی کام کیا جائے اس پر عمل درآمد کا مرحلہ آئندہ کی حکومت پر چھوڑ دیا جائے،آج روز کہا جاتا ہے کہ ’’اگلی باری پھر ہماری‘‘ تو جلدی کیا ہے............!!
ایمینسٹی
Feb 13, 2018