عطاالحق قاسمی کی تقرری غلط ہوئی تو تقرر کرنیوالوں سے رقم وصول کرینگے: چیف جسٹس

Feb 13, 2018

اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت)سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایم ڈی پی ٹی وی تعیناتی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ جمہوریت ہے، بادشاہت نہیں،جمہوریت قانون کی حکمرانی سے چلتی ہے،ہمیں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہے،سماعت کے دوران سابق وزیر پرویز رشید نے عطاالحق قاسمی کو چیئرمین تعینات کرنے کا اعتراف کیا ، عدالت نے ایف بی آر سے عطاء الحق قاسمی کے 10سال کے گوشوارے طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی ۔چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی توسابق وفاقی وزیر پرویز رشید،فواد حسن فواد عدالت میں پیش ہوئے ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے عدالت کو بتایا کہ عطاالحق قاسمی کی تقرری کے دو حصے ہیں ،چیف جسٹس نے کہا کہ عطاالحق قاسمی کی تعیناتی کی نوٹیفکیشن دکھائیں، تقرری کانوٹیفکیشن کس نے بھیجا تھا ،جس پر رانا وقار نے بتایا کہ تقرری کی سمری وزارت اطلاعات نے بھیجی ،چیف جسٹس نے کہا کہ سمری سے قبل کسی نے نوٹ بھیجا ہوگا،چیئرمین کاعہدہ خالی ہے،ایم ڈی پی ٹی وی کاعہدہ تاحال خالی ہے، چیف جسٹس نے مزید کہا کہ محمدمالک کے جانے کے بعد یہ عہدہ خالی ہے ،ہمیں یہ بتائیں عطاالحق قاسمی کی تقرری کاعمل کہاں سے شروع ہوا،کیاوزیراعظم سے کوئی ہدایات آئیں؟،ہمیں اصل سمری دکھائیں ،چیف جسٹس نے کہا کہ اگر تقرری غیرقانونی ہے تواسے غیرقانونی قرار دیں گے ،اگرتقرری غلط ہوئی تو پیسے ان سے وصول کریں گے جنہوںنے تقرری کی،اورعہدے کافائدہ لیارقم ان سے وصول ہوگی ، چیف جسٹس نے اس دوران قرار دیا کہ حکومت کے پاس عہدے پر کرنے کااختیار نہیں ہے ،امریکہ کے صدر کوکھوکھاالاٹ کرنے کااختیار نہیں ،یہاں بڑی بڑی پوسٹوں سے نوازاجاتاہے،سماعت کے دوران چیف جسٹس نے پوچھا وزیر اعظم کے سیکرٹری فواد حسن فواد کہاں ہیں ، چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہی سب کچھ چلارہے تھے ؟،سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں نہ یہ معاملہ نیب کوبھیج دیں،نیب انکوائری کر کے جائزہ لے کیاتقرری قانونی تھی ،چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے پاس تحقیقات کااختیار ہے،کیوں نہ نیب تحقیقات کرے کہ تقرری میں بے ضابطگیاں ہوئی ہیں یانہیں ؟،سماعت کے دوران سابق سیکرٹری اطلاعات نے عدالت کو بتایا کہ وزارت اطلاعات کی جانب سے تقرری کی سمری وصول ہوئی،سابق ایڈیشنل سیکرٹری اطلاعات نے کہا کہ ان کے پاس سمری نہیں آئی تھی ،جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس نے سمری بھیجی تھی ؟،سابق ایڈیشنل سیکرٹری نے بتایا کہ سمری آئی پی ونگ سے میرے پاس آئی تھی ،چیف جسٹس نے پوچھا کہ آئی پی ونگ کوسمری کس نے بنانے کاکہا؟،سمری کس نے جاری کروائی کروائی کہ عطاالحق قاسمی کوممبر بورڈ بنادیں ؟،ایڈیشنل سیکرٹری اطلاعات نے بتایا کہ بورڈ کاایک ممبر میڈیاسے ہوتاہے ، چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے سمری موو کرنے والے کانام بتائیں ،سماعت کے دوران چیف جسٹس نے فواد حسن فواد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم سے دوسری بات نہ کریں،یہاں سے واپس سیکرٹریٹ نہیں جائیں گے، جس پر فواد حسن فواد نے کہا کہ میں نے کھبی غلط بیانی نہیں کی، اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ سے کسی نے غلط بیانی منسوب کی ہے؟،فواد حسن نے کہا کہ مجھے وضاحت کرنے کا موقع دیں، میری طرف سے ایڈیشنل سیکرٹری اطلاعات کو کوئی ہدایت نہیں دی گئی، وزیراعظم آفس سے بھی کوئی ہدایات اطلاعات کی وزارت کو نہیں دی،چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کی پروموشن گریڈ 22 میں ہوئی،جب یہ سب کچھ ہوا اس وقت گریڈ 21 میں تھے؟،فواد حسن فواد نے کہا کہ سیکرٹری وزیراعظم کا اعہدہ 22 گریڈ کا نہیں ہے، اس موقع پر عدالت نے ایڈیشنل پراسیکیوٹر نیب کو طلب کرلیا ، سماعت کے موقع ہر عطاالحق قاسمی کی وکیل عائشہ حامد نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عطاالحق قاسمی کامیڈیاٹرائل ہورہاہے ،عدالت کوبتایاگیا عطاالحق قاسمی نے 27کروڑ خرچ کیئے،عطاالحق قاسمی نے 48لاکھ وصول کیے،اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھ لیتے ہیں اس کی تحقیقات کروالیتے ہیں ،لاکھوں روپے پٹرول کی مد میں وصول کیے گئے ،وکیل عائشہ حامد نے کہا کہ27کروڑ روپے کی رقم عطالحق قاسمی سے منسوب کرناان کی بدنامی ہے ،اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ27کروڑ عطاالحق قاسمی کی حوالے سے خرچ ہوئے، چیف جسٹس نے کہا کہ عطاالحق قاسمی کوسرکاری گھر میں لفٹ بھی لگواکردی گئی ،یہ ساری باتیں تحقیقات میں سامنے آجائیں گی ،اس دوران اڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے کہا کہ نیب کے آنے سے پہلے میری وضاحت سن لیں ، اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگریہ رقم زیادہ اداہوئی توسب کورقم بھرناپڑے گی ،جس نے تقرری کی ہے سب سے رقم وصول کریں گے، رانا وقار نے عدالت کو بتایا کہ ڈی جی آئی پی ونگ ناصرجمال نے سمری موو کی جس پر عدالت نے ڈی جی آئی پی کو طلب کرلیا ، سماعت کے دوران عدالت نے عطاالحق قاسمی کے 5سال کاٹیکس ریکارڈ بھی طلب کرلیا، چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے وہ بندہ چاہیے جس کو عطاالحق قاسمی کے نام کاخیال آیا،اس دوران ڈی جی ایف آئی کوبھی بلالیتے ہیں ،سماعت کے دوران سیکرٹری اطلاعات نے عدالت کو بتایا کہ 27کروڑ کے اخراجات کی تفصیل میں تمام اخراجات شامل ہیں ،چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ عطاالحق قاسمی نے تنخواہ کی کتنی رقم وصول کی؟،سیکرٹری اطلاعات نے عدالت کو بتایا کہ عطاالحق قاسمی کی تنخواہ 15لاکھ تھی ،ساڑھے تین کروڑ روپے تنخواہ2سال میں وصول ہوئی،چیف جسٹس نے کہا کہ ساڑھے تین لاکھ میڈیکل اخراجات ہیں،سفری اخراجات 10لاکھ روپے ہیں ،عطااالحق قاسمی کومرسڈیز کار دی گئی، چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عطاالحق قاسمی کی گاڑی کی دیکھ بھال کے اخراجات کیسے اور کس قانون کے تحت دئیے گئے؟،2سال میں 24لاکھ کے اخراجات تفریح کی مد میں ہیں،اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ لاہور کے کیمپ آفس میں کتنے اخراجات آئے،سیکرٹری اطلاعات نے بتایا کہ11 لاکھ روپے کیمپ آفس کے اخراجات آئے،پروگرام کے اخراجات 75 لاکھ روپے کے نزدیک تھے، وکیل عائشہ حامد نے عدالت کو بتایا کہ عطاء الحق قاسمی نے پروگرام کرنے کا معاوضہ نہیں لیا، چیف جسٹس نے کہا کہ پروگرام کے میزبان کو 50 لاکھ روپے گئے،عطاء الحق قاسمی کے پروگرام کے اشتہار کہاں دئے گئے،جس پر سیکرٹری اطلاعت نے بتایا کہ مختلف اخبارات میں پروگرام کے اشتہار دئے گئے،پی ٹی وی کا دیگر میڈیا اداروں کے ساتھ اشتہارات کا بارٹر سسٹم کے تحت معاہدہ ہے،اشتہارات کے جواب میں اخبارات کے 4532 پرومو چلائے گئے،، وکیل عائشہ حامد نے کہا کہ بطور چیئرمین 15 لاکھ کی تنخواہ بلاجواز نہیں ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ وزیر اعظم کے پاس قانون کے تحت کام کا اختیار ہے،دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم کے پاس لاتعداد اختیارات ہے جس کو مرضی تقرری کر دیں،سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ اصلاحات کا وقت آگیا ہے،جہاں جہاں غلطیاں ہوئی ہیں اصلاح کریں گے،عطاالحق قاسمی کے نام کا خیال یا خواب کیسے آیا،چیف جسٹس نے مزید کہا کہ موجودہ سیکرٹری اطلاعات کو عہدے سے نہیں ہٹایا جائے گا،سیکرٹری ایمانداری کے ساتھ کام کریں تو عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے، عدالت نے ایف بی آر سے عطا الحق قاسمی کے 10 سال کے گوشوارے طلب کر لئے ، سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت بتایا کہ پی ٹی وی کارپوریشن کے 7 ڈائریکٹرز ہیں،تمام ڈائریکٹرز کا تقرر وفاقی حکومت کرتی ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ کیا پی ٹی وی کے ڈائریکٹر کے لئے کوئی اہلیت ہے؟، کیا کابینہ سے ڈائریکٹرز کی تعیناتی کی منظوری لی گئی، رانا وقار نے کہا کہ چیئرمین کی تقرری کی منظوری وزیر اعظم نے دی، وزیر اعظم نے یہ منظوری بطور چیف ایگزیکٹو دی، عطاء الحق قاسمی کا تقرر بطور ڈائریکٹرز ہوا تھا،پی ٹی وی بورڈ نے عطاء الحق قاسمی کو چیئرمین منتخب کیا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بورڈ کو بتایا گیا عطاء الحق قاسمی کو وزیراعظم چیئرمین لگانا چاہتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ عطاء الحق قاسمی کے پروگرام کی ویڈیو بھی منگوا لیں،پی ٹی وی بورڈ میٹنگ کا ریکارڈ بھی منگوا لیں،عطاء الحق قاسمی کی تنخواہ کس نے فکس کی یہ بھی منگوا لیں،دیکھنا ہے پروگرام میں کون سے کھوئے گوہر نایاب ڈھونڈے گئے، چیف جسٹس نے مزید کہا کہ بورڈ کے الیکشن دیکھا دیں جس میں چیئرمین منتخب کیا گیا، رانا وقار نے عدالت کو بتایا کہ جنوری 2016 میں بورڈ کی میٹنگ ہوئی،چیف جسٹس نے کہا کہ جس شخص نے عطاء الحق قاسمی کا نام پیش کیا اسکا بھی بتا دیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پی ٹی وی کے لئے پروفیشنل ایم ڈی ہونا چاہیے، بظاہر پی ٹی وی ایک ڈوبتا ہوا جہاز ہے، سماعت کے دوران چیئرمین ایف بی آر کو فوری پیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے عطاء الحق قاسمی کے گزشتہ دس سال کے ٹیکس ریٹرنز عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا گیا،چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی ہم پیار پیار سے چل رہے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ گورنمنٹ کو شرمندگی ہوجو وہ کرتے رہے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عطاء الحق قاسمی کی چیئرمین بنا کر تنخواہ ایم ڈی کی دی گئی،چیف جسٹس نے کہا کہ اگر تقرری کرنے والے کی نشاندہی نہیں ہو رہی تو ایف آئی اے سے کہتا ہوں کہ بندہ ڈھونڈ کر لائیں،بورڈ کے جس اجلاس میں ان کی تقرری کی منظوری ہوئی اس اجلاس کا ریکارڈ منگوایا جائے، سماعت کے دوران کچھ دیر کا وقفہ ہوا بعدازاں سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو ڈی جی آئی پی ونگ ناصر جمال عدالت پیش ہوئے چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو عطا الحق کا نام کس نے تجویز کرنے کا کہا تھاناصر جمال نے بتایا کہ2015 میں وزارت اطلاعات کے سیکرٹری محمد اعظم تھے، چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے سامنے سچ بتانا ہے،ناصر جمال نے کہا کہ سیکرٹری نے مجھے بلایا اور کہا کہ انہیں چیئر مین تقرری کی ہدایت آئی ہے،چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ عمر میں رعائیت دینا پالیسی فیصلہ کیسے ہو گیا،ناصر جمال نے بتایا کہ عمر میں رعائیت کی سمری سیکرٹری اطلاعات نے موو کی،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عمر رعائیت کی سمری میں کسی کا نام نہیں لکھا گیا،ناصر جمال نے کہا کہ وزیر اعظم نے سمری کی منظوری دی،سمری کے زریعے چار اداروں کے سربراہان کے لیے عمر کی رعائیت لی گئی،لوک ورثائ،پی این سی اے،اکادمی ادبیات اور پی ٹی وی کے لیے رعائیت لی گئی،ناصر جمال نے مزید بتایا کہ میں نے کہا چیئر مین لگانے کی اس وقت کیا ضرورت ہے کیونکہ اس وقت سیکر ٹری اطلاعات ایکس آفیشو چیئر مین بھی تھے،چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت وفاقی وزیر کون تھے، ناصر جمال نے کہا کہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشیدتھے،سیکرٹری نے کہا کہ ایسے شخص کو چیئر مین کے لیے غور کریں جس کا ادب کا تجربہ ہوجس نام پر غور کر رہے ہیں اسکی عمر 70 سال سے زیادہ ہے،میں نے سیکرٹری سے کہا یہ تقرری ممکن نہیں ہے،سیکرٹری نے کہا عمر میں رعائیت کی سمری موو کرتے ہیں،سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ جمہوریت ہے، بادشاہت نہیں،جمہوریت قانون کی حکمرانی سے چلتی ہے،ہمیں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہے، سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ چیئرمین کی تعیناتی دسمبر اور بورڈ کا انتخاب جنوری میں ہوا،ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے بتایا کہ بورڈ کا کام وزیراعظم کے احکامات کی منظوری تھا،چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ قانون کے ساتھ فراڈ نہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بورڈ نے تو چیئرمین کا انتخاب کرنا تھا،چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ عدالت میں مزید شرمندہ ہونا چاہتے ہیں،رانا وقار نے کہا کہ عدالت سے معذرت خواہ ہوں،چیف جسٹس نے کہا کہ قانون میں چیئرمین کی تنخواہ اور مراعات کیاہیں ،کیا عطاالحق قاسمی کی تنخواہ من مرضی سے مختص کی گئی؟ ،کیا بادشاہ ہے جتنی مرضی تنخواہ مقرر کردی گئی،جسٹس اعجا زالاحسن نے کہا کہ چیئرمین کاعہدہ تواعزازی ہوتاہے ،چیف جسٹس نے کہا کہ یہ توسیدھاساددھانیب کاکیس ہے ،نیب نے دس دن میں کیس کی تحقیقات کرکے رپورٹ دے ،سماعت کے دوران سابق وفاقی وزیر پرویز رشید عدالت میں ہوئے اور کہا کہ پی ٹی وی جب شروع ہواتو نیوز چینل تھا میں وزیربناتوپی ٹی وی پروگرام مارکیٹ سے خریدتاتھا ،کوشش تھی کہ پی ٹی وی اپنی پروڈکشن کرے ،پرویز رشیدنے اعترافکرتے ہوئے کہا کہ عطاالحق قاسمی کا نام میں نے دیا تھا ، 8 سال الحمرا آرٹس کونسل کے سربراہ رہے،چیف جسٹس نے کہا کہ عطاالحق قاسمی کی کارکردگی پر کوئی بات نہیں کرونگا،عدالت نے صرف تعیناتی کا قانون کے مطابق جائزہ لینا ہے،جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پی ٹی وی چلانے کے لیے ماہر کی ضرورت تھی لکھاری کی نہیں،پرویز رشید نے کہا کہ پی ٹی وی چلانا ایم ڈی کا کام تھا چیئرمین کا نہیں،اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایم ڈی کی جگہ افسانہ اور ڈرامہ نگار کو کیوں لگایا گیا،ایم ڈی کا عہدہ تو آج تک خالی ہے،آپ کی گفتگو کے قانونی نتائج بھی ہو سکتے ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ عدالت خود جائزہ لے کر فیصلہ کرے اوردوسرا طریقہ یہ ہے کہ کیس نیب کو بھجوا دیا جائے،چیف جسٹس نے ناصر جمال کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پہلے آپ کو معصوم سمجھ رہا تھا،لگتا ہے آپ بھی تعیناتی کے سارے مرحلے کا حصہ رہے، بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت 21 فروری تک ملتوی کردی ہے۔

مزیدخبریں