قارئین کرام انسانی ذہن بھی عجیب چیز ہے، پرت در پرت تہہ در تہہ اس کے اندر سوچوں کے ایسے ایسے نادر خزانے موجود ہیں کہ جتنی گہرائی سے کھوجتے جائیے اتنے ہی انمول موتی ہاتھ لگتے جاتے ہیں لیکن یہ انسان کی بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ وہ اپنے ذہن کا ایک سوواں حصہ بھی ابھی تک استعمال نہیں کر پایا اس کے باوجود آسمان تک جا پہنچا ہے اگر وہ اسے بھرپور طریقے سے استعمال میں لے آئے، اپنے ہونے سے نہ ہونے تک یعنی ہست سے نیست تک گہرائی سے سوچنے بیٹھے تو پھر اسے اپنی گردن جھکا کر دیکھ لینے پر اپنا پیدا کرنے والا نظر آ سکتا ہے مگر ایسی باتیں سمجھنے کے لئے بہت باریک ہیں فی الحال تو وہ اپنی منفی سوچوں کے ہاتھوں نیست ہو رہا ہے۔ منفی سے مثبت کی طرف سفر ہی شروع نہیں کر سکا جب کہ ہونا تو یہ چاہئے کہ مایوسی، ذہنی انتشار اور منفی نظریات کی دلدل سے نکلنے کے لئے اسے کامیاب اور روحانی بالیدگی کے ساتھ بامقصد زندگی گزارنے کا ایک فارمولا طے کر لینا چاہئے اس حوالے سے مثبت اور منفی خیالات رکھنے کے سلسلے میں کیا ہی خوب مثال موجود ہے یعنی پانی سے آدھا بھرا ہوا گلاس دیکھ کر منفی خیالات رکھنے والے کہتے ہیں آہ گلاس خالی ہے جب کہ مثبت خیالات کے مالک خوش ہو کر کہتے ہیں الحمدللہ آدھا گلاس بھرا ہوا ہے۔
دیکھا جائے تو اس مثال سے بطور فلسفہ یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ دراصل زندگی میں بہت کچھ انسان کے اپنے خیالات اور سوچوں پر منحصر ہے جبکہ اس دلیل کی سپورٹ میں قدرت کی جانب سے بھی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں جن کو سامنے رکھ کر ہم دونوں سوچوں کے درمیان حد امتیاز کھینچ سکتے ہیں۔ دیکھا جائے تو دنیا میں ہر چیز کے دو پہلو بجائے خود اس کے جواز کی ضمانت ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انسان ان دونوں میں سے کسی چیز کے کس پہلو کو کس انداز سے لیتا ہے آپ اس کے منفی پہلو کو سامنے رکھ کر اپنی زندگی میں مایوسیوں کا زہر پھیلا سکتے ہیں جب کہ مثبت پہلو سے خوشیاں کشید کر سکتے ہیں۔ مختصراً یوں سمجھئے کہ آنسو خوشی کے بھی ہوتے ہیں اور درد کے بھی ہوتے ہیں۔ قہقہہ خوشی سے بے اختیار ہو کر بھی لگایا جاتا ہے لیکن ایک قہقہہ ہذیان کا بھی ہوتا ہے چیخ خوشی سے بھی نکل جاتی ہے لیکن چیخیں اذیت کی بھی ہوتی ہیں۔ آگ جلا کر راکھ بھی کر ڈالتی ہے لیکن اسی آگ سے سونا بھی کندن بن کر نکلتا ہے یہ آپ کو زندگی کی حرارت بھی دیتی ہے بلکہ اس روشنی کے روشن پہلو سے دنیا کے تمام تر کام چل رہے ہیں گویا اگر یہی شعلہ انسان کو جلا سکتا ہے تو محسوسات کی یہی آگ یا شعلہ ہمیں اندرونی طور پر زندہ بھی رکھتا ہے۔ اسی کو ہم جذبے اور احساسات کی تپش یا شعبہ جان و حیات کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ انسان اگر ذہنی، فکری، نفسیاتی اور جذباتی اعتبار سے برف زدہ ہے تو اسے اس کی باآسانی زندہ موت کہا جا سکتا ہے بلکہ اس روشنی کے روشن پہلو سے دنیا کے تمام تر کام چل رہے ہیں گویا اگر یہی شعلہ انسان کو جلا سکتا ہے تو محسوسات کی یہی آگ یا شعلہ ہمیں اندرونی طور پر زندہ بھی رکھتا ہے۔ اسی کو ہم جذبے اور احساسات کی تپش یا شعلہ جان وحیات کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ انسان اگر ذہنی، فکری، نفساتی اور جذباتی اعتباز سے برف زدہ ہے تو اسے اس کی باآسانی زندہ موت کہا جا سکتا ہے۔
دوسری مثال دیکھئے آپ کے پاس مٹی کا دیا بھی ہے۔ تیل بھی ہے، اس میں جلانے واالا دھاگہ بھی ہے مگر آگ کا شعلہ موجود نہیں ہے تو سب بے کار ہے لہٰذا دل میں امید اور مثبت رویئے کا شعلہ ہمیشہ جگائے رکھیں بلکہ برقرار رکھیں کیونکہ آپ کی صحت مند سوچوں کا، نیک نیتی اور نیکی کا شعلہ ہی آپ کے وجود کے ہونے کا اصلی بلکہ عملی جواز ہے ورنہ آپ جیتے جی مرے ہوئے ہیں لیکن آپ کے لئے یہ سب کچھ سوچنا اور کرنا صرف اس وقت ممکن ہو سکتا ہے جب آپ آدھے خالی گلاس کو آدھا بھرا ہوا کہیں، مثبت اور منفی نظریات میں ہمیشہ فرق رکھیں۔ اپنے مثبت وخوشگوار خیالات کے ذریعے اپنی منفی اور مایوس کن سوچوں کو مسلسل رد کرتے رہیں تاکہ زندگی میں ہر سطح پر کامیابیاں آپ کا ہاتھ پکڑے رکھیں۔ دیکھا جائے تو مختصراً یہ کہ کامیاب زندگی کے لئے حتمی کامیابی کی کلید آپ کے اپنے ہاتھ میں موجود ہے منفی سوچوں کو رد کرکے مثبت کی طرف سفر شروع کر دیں۔ ناکامیاں اور مایوسیاں آپ تک آتے آتے اپنا وجود کھو دیں گی۔