9 فروری برادر اسلامی جمہوریہ ایران کا قومی دن تھا۔ انقلاب ایران اور قومی دن کے حوالے سے ہم ایرانی بہادر قوم کو ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں۔ چونکہ قومی دن کی تقریبات ہو رہی ہیں لہٰذا ہم اسلام آباد میں برادر ملک کے بہت فعال سفیر محترم مہدی ہنردوست کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ اوپر جو بات شروع ہوئی اسے ہم کالم کے دوسرے حصے میں دوبارہ زیربحث لائیں گے۔ فی الحال گوادر‘ چابہار اور دوبئی میں ’’تقابل‘‘ کی بات کرتے ہیں۔ ہمارے کچھ وزراء بات کرتے ہوئے تدبر و فراست کو ہمرکاب رکھنا ضروری نہیں سمجھتے۔ حال ہی میں نائب وزیر توانائی و بجلی عابد شیر علی نے فرمایا کہ گوادر پورٹ اور اہالیان گوادر کیلئے عنقریب ایران سے بجلی لی جائیگی۔ ہمیں خوشی اور مسرت ہوئی کہ ایران کی اہمیت اور حیثیت کو بطور مفید مسلمان پڑوسی تسلیم کیا جا رہا ہے اور ایرانی بجلی کو مثبت طور پر استعمال کرنے کی ترکیب زیرغور ہے۔ سی پیک چونکہ بلوچستان میں زیر مؤثر ہو گا اور اس کا تعلق بھی گوادر سے ہی ہو گا۔ لہٰذا اگر ایرانی بجلی کو اہالیان گوادر کیلئے زیراستعمال لانا ہو تو چار بہانر کے لئے بھی کچھ ’’محبت‘‘ دکھانی چاہئے۔ لہٰذا میں خود یہ ’’محبت‘‘ پیش کرتا ہوں کہ چابہار بندرگاہ کی تعمیر کو مثبت طور پر دیکھنا چاہئے۔ ایرانی قیادت اگر چابہار اور گوادر دونوں کو سسٹرز بندرگاہیں کہہ چکی ہے تو ہمیں بھی ان دونوں کو سسٹرز بندرگاہیں سمجھنا چاہئے۔ ایرانی قوم کو چابہار کے ذریعے معاشی ارتقاء اور استحکام کا حق حاصل ہے۔ اسی طرح پاکستانی قوم کو بھی گوادر بندرگاہ اور سی پیک کی تعمیر و تکمیل کا حق حاصل ہے۔ ایران اگر سی پیک منصوبے کے لئے بھی خیر سگالی اور محبت و تعاون کے مثبت جذبات اور تعلقات پیش کر سکے تو یہ ’’زمینی ضرورت‘‘ کو پورا کریگا۔ ہمیں اپنے نائب وزیر عابد شیر علی کی یہ بات تو بہت ہی بری لگی کہ گوادر کی تعمیر کے بعد دنیا دوبئی کی بجائے گوادر کا رخ کریگی۔ دوبئی (متحدہ عرب امارات) کی ’’جان‘‘ اور ’’زندگی‘‘ ہے۔ ہمارے لئے ایران بطور پڑوسی جس قدر اہم ہے بطور مسلمان اور بہت اچھے دوست کے متحدہ عرب امارات‘ اس کا دوبئی اور ابوظہبی بھی اہم ہیں۔ خدا کرے متحدہ عرب امارات کے عوام دوبئی اور ابوظہبی کے ذریعے خوشحالی و معاشی ارتقاء کی نعمتوں سے دائمی طور پر فیض یاب ہوں جس طرح ہماری دعا ہے کہ ایرانی قوم چابہار سے معاشی فوائد اٹھائے۔ ہم دوبئی اور گوادر میں اگر ’’تقابل‘‘ کرینگے تو یہ ’’منفی‘‘ سوچ کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے۔ایسا کہنے والوں کا موقف ہوتا تھا کہ گوادر گہرے سمندری پانی میں ہے جبکہ دوبئی گہرے سمندر میں نہیں لہٰذا دوبئی کے حکمران خوف زدہ ہیں کہ گوادر بننے کے بعد معاشی طور پر دنیا کی توجہ دوبئی کی بجائے بلوچستان کے گوادر کی طرف ہو گی۔ ہم اس منفی سوچ اور امارات پر ایسے الزامات کو مسترد کرتے ہیں کہ دوبئی اور ابوظہبی کو جو دنیا میں آج اہمیت حاصل ہے وہ مستقبل میں اسے بدستور میسر ہی رہے گی۔ متحدہ عرب امارات اور سعودیہ کی پاکستان کے ساتھ ہمہ گیر یکجہتی کا تقاضا ہے کہ ہم بھی ان دونوں عرب دوستوں کا خیال رکھیں اور ان کی خوشحالی و معاشی استحکام کو قبول کریں۔ اب آیئے کالم کے شروع میں جو کچھ ہم نے لکھا اس پر بات کرتے ہیں۔ 2012ء میں حج کے موقعہ پر ہمارا قیام جس ہوٹل میں تھا مدینہ کے اسی ہوٹل میں ایرانی حجاج کرام بھی قیام پذیر تھے۔ ایک بات ہم کھل کر لکھ رہے ہیں کہ ایرانی عورت کے لباس‘ چادر اور شرم و حیا نے اسی طرح متاثر کیا جس طرح مدینہ منورہ ہی کے ایک ہوٹل میں عمرہ کی غرض سے قیام کے دوران ہمیں ترک خواتین اور بچوں نے متاثر کیا تھا۔ مسلمان عورت کو چہرہ‘ ہاتھ اور پاؤں کھلے رکھنے کی اجازت مسلمہ کچھ اہم فقہاء و محدثین کے ہاں بھی موجود ہے۔ مگر اس پر عمل ہم نے ترک خواتین اور ایرانی خواتین کو مدینہ منورہ میں کرتے دیکھا تھا۔ لہٰذا شہزادہ محمد بن سلمان کی وساطت سے شاہ سلمان آل سعود خواتین کی کچھ آزادی‘ انہیں حجاب اور پردے کے حوالے سے کچھ محدثین وہ فقہاء کی ’’اجازت‘‘ سے ممنون کر چکے ہیں تاکہ سعودی خواتین کھلے چہرے‘ ہاتھوں‘ پاؤں کی ثقہ اسلامی اجازت سے فیض یاب ہوں اور کاروبار زندگی میں خود شناس فرد کے طور پر شریک ہو سکیں۔ اگر ایرانی قوم مسلمان دنیا کی ’’قیادت‘‘ کرنے کی متمنی ہے تو اسے اس قیادت کیلئے درکار ’’لوازمات‘‘ کا راستہ پہلے اپنانا چاہئے۔ جبکہ ماضی کی تاریخ اگر زیرغور لائیں تو سنی ترکوں اور سنی عربوں سے ہمیشہ ایران حالت جنگ یا حالت کشمکش میں رہا ہے۔ جن سرزمینوں‘ معاشروں‘ اقوام خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوں آپ حالت جنگ میں رہیں اور کشمکش کے زیراثر انہیں ’’مفتوح‘‘ بتانے میں انقلابی سوچ کو استعمال کریں وہ سرزمینیں‘ اقوام اور ان کی سیاست و ثقافت کیسے آپکو اپنی ’’قیادت‘‘ کرنے دیگی؟ اس اعتبار سے ایرانی قوم اور موجودہ ولایت فقہیہ بادشاہت کے یکطرفہ فیصلوں سے شدید ترین معاشی تباہی‘ سیاسی بے چینی‘ اور عالمی تنہائی ملی ہے۔ کچھ عرصہ سے ایران میں جو مذہبی فیصلہ ساز قیادت کیخلاف مظاہرے اور احتجاج ہوتے رہے ہیں ہماری اطلاع کیمطابق وہ فضا تو اب بھی بدستور موجود ہے۔ روزانہ یہ کشمکش متحرک رہتی ہے۔ ایک بات ہم کھل کر لکھ رہے ہیں کہ ایرانی قوم کیلئے ہمیں اخلاص سے ’’خیر‘‘ کی خواہش کرنی چاہئے۔ اگر ایرانی موجودہ شدید مذہبی اور تنگ نظر قیادت سے نجات پانا چاہتے ہیں تو یہ ایران کے اندر کا معاملہ ہے۔ باہر کی کسی بھی قوت کو اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے جیسا کہ صدر ٹرمپ نے جذباتی پن سے دوچار ہو کر مظاہرین کی حمایت میں بیان جاری کیا۔ اس کا فائدہ؟ بلکہ برسراقتدار طبقہ ’’اغیار‘‘ کی ’’سازش‘‘ کا نام لیکر جائز جدوجہد کو بھی کچل دیا کرتا ہے جیسا کہ صدر ٹرمپ کے بیان کے ردعمل میں موجودہ مذہبی فیصلہ ساز قیادت نے مفلسی کے سبب نمودار جدوجہد کو نیست و نابود کرنے کا راستہ اپنایا ہے۔ صدر حسن روحانی کا انداز فکر مناسب ہے۔ انہوں نے سیاسی عوامی اختلاف‘ احتجاج‘ مظاہروں کو سیاسی حق تسلیم کیا ہے۔ ایک روحانی شخصیت کی پیشن گوئی ہے کہ ایران میں بادشاہت واپس آئیگی۔ ہم اس رائے کو حتمی نہیں کہتے۔ ہمارے خیال میں اگر مذہبی فیصلہ ساز ایرانی قیادت ’’ان نعروں‘‘ پر غور کر لے جو ولایت فقہیہ سے وابستہ اداروں کی فیصلہ سازیوں کیخلاف ایرانی احتجاجی آواز بنتی رہی ہے تو وہ بادشاہت کی واپسی کا راستہ وہ روک سکتی ہے۔ بنیادی کام فوری کرنے کا یہ ہے کہ ایرانی قوم کو روزگار فراہم ہو۔ معیشت و معاش کی اولیت صرف ایرانی قوم کیلئے مختص ہو۔ اگر ایسا کرنا ہے تو ایرانی مذہبی فیصلہ سازی کو شام میں بشار الاسد و عراق میں اپنی عسکری موجودگی‘ ضرب اللہ کی ہمہ گیر مدد‘ یمن میں حوثیوں کی ’’مدد‘‘ کو ختم کرنا ہو گا۔ ایرانی ریاست کے استحکام کا تقاضا ہے کہ ’’باہر سے ہرگز مداخلت نہ ہو۔ انقلاب ایران کو سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ ایرانی عوام حاکمانہ مذہبی جبر و ظلم اور لوٹ مار کے سبب حکمران قیادت کیخلاف ہو گئے ہیں۔
مذکورہ بالا تحریر بروز جمعہ لکھی گئی تھی۔ 10فروری کو سعودی ’’مجلس ہیئت الکبار‘‘ یعنی سینئر سکالرز کونسل کے رکن شیخ عبداللہ المطلق نے کہا کہ خواتین کو عبایہ پہننے کی ضرورت نہیں۔ گویا انہوں نے ہمارے اوپر لکھے موقف کی تائید کی ہے۔ واشنگٹن سے ایران پر الزام ہے کہ ایران نے حزب اللہ اور یمنی حوثیوں کو ایک ارب 70 کروڑ ڈالر کی امداد دی ہے۔
تہران میں اسلامی انقلاب کا 39واں جشن مورخہ 11 فروری کو منایا گیا جس میں ایرانی صدر حسن روحانی نے خطاب کیا مگر رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنائی کے مشیر عسکری اور یحییٰ رحیم صفوی نے صدر حسن روحانی کے پیش کردہ اعداد و شمار کو جعلی اور غیر حقیقی قرار دیا ہے گویا صدر روحانی اور آیت اللہ علی خامنائی کیمپوں میں شدید مخالفت عود کر آئی ہے۔