گذشتہ بیس سال سے زائد عرصہ سپریم کورٹ رپورٹنگ کے دوران پاکستان کی وکالت کے بڑے ناموں کو کمرہ عدالت عظمیٰ میں دیکھنے اور سننے کا موقعہ ملا۔ عبدالحفیظ پیرزادہ، شریف الدین پیرزادہ، عابد حسن منٹو، فخر الدین جی ابراہیم اور دیگر بڑے وکلاء کو سن کر وہ کچھ سیکھا جو شاید پاکستان کے کسی بہترین لاء کالج میں بھی نہ پڑھایا جاتا ہو۔ مگر ان سب میں ایک بات مشترک تھی کہ یہ سب مرد حضرات تھے۔ پاکستان جیسے معاشرے میں مرد حضرات کو جو فوقیت ہر ادارے میں حاصل ہے وہ سب جانتے ہیں۔ عدلیہ میں مرد حضرات کو حاصل فوقیت کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ پاکستان جیسے اسلامی ملک میں ایک خاتون یعنی بے نظیر بھٹو کو اسکے حالات نے حکومت کے بلند ترین عہدے یعنی وزارت عظمیٰ تک تو پہنچا دیا مگر آج تک کوئی پاکستانی خاتون چیف جسٹس کے عہدے تک تو کیا سپریم کورٹ کے جج کے عہدے تک بھی نہیں پہنچ پائی۔
اگر کوئی ایک پاکستانی خاتون سپریم کورٹ کے جج اور حتیٰ کہ ملک کی پہلی خاتون چیف جسٹس بننے کے اہل تھی تو وہ کوئی اور نہیں عاصمہ جہانگیر ہی تھی۔ مگر عاصمہ جہانگیر ان لوگوں میں سے نہیں تھی جو آئین اور جمہوریت کی جدوجہد کو چھوڑ کر عہدوں کے پیچھے بھاگتی۔ ان کو ایسے عہدوں کی پیشکش بھی رہی مگر انہوں نے اپنے اصولوں اور نظریات کا سودا کر کے کسی فوجی آمر یا اسکے گماشتوں کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ آج ہماری عدلیہ اور وکلاء برادری میں بڑے بڑے نام ایسے ہیں جن کے آباؤ اجداد نے اصولوں اور نظریات کا سودا کر کے اعلیٰ عدالتی عہدے حاصل کئے اور اپنے بچوں کیلئے وکالت اور منصفی کے پیشے میں اپنا نام روشن کرنے کی راہ ہموار کی۔ یہ وہ قانون کے ٹھیکیدار خاندان ہیں جنکے مرد وکلاء حضرات نے جابر حکمرانوں کے ہاتھ بیعت اس وقت کی جب عاصمہ جہانگیر جیسے نظریاتی وکلاء مارشل لاء کیخلاف احتجاج میں سڑکوں پر لاٹھیاں اور ڈنڈے کھاتے اور جیل میں ڈالے جا رہے تھے۔
جمعہ کے روز سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی عدالت کے سامنے عاصمہ جہانگیر نے اپنی زندگی کا آخری مقدمہ لڑا۔ چیف جسٹس نے ایگزیکٹ جعلی ڈگری اسکینڈل کے تمام ملزمان کے ناموں کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا حکم دیا اور پھر چند صحافیوں کے کہنے پر اپنا حکم واپس لیا تو عاصمہ جہانگیر نے کھڑے ہو کر اس عمل کی مخالفت کی۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ عدالت اپنا لکھوایا ہوا حکم واپس کیسے لے سکتی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی حکم نامے پر دستخط نہیں کئے گئے تھے اور جیسے ای سی ایل میں ملزمان کا نام ڈالنے کا حکم دیا، اسی طرح اس حکم کو واپس بھی لے سکتے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ سپریم کورٹ یا تو رپورٹروں کو سنے یا وکیلوں کو۔ سماعت کے بعد اسی شام عاصمہ جہانگیر سے فون پر بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ یہ دن ان کیلئے اداسی لے کر آیا ہے۔ اس روز سپریم کورٹ میں ہونے والی کاروائی سے متعلق وہ واضح طور پر نالاں تھیں اور بار بار یہ کہہ رہی تھیں کہ ایسا انہوں نے پہلے نہیں دیکھا۔
راقم نے انہیں انٹرویو کیلئے وقت مانگنے کو فون کیا تھا، جس کیلئے انہوں نے اگلے ہفتے وقت دینے کا وعدہ کیا۔ کیا معلوم تھا کہ وہ میری ان سے آخری گفتگو ہو گی۔سپریم کورٹ میں انکی وکلاء برادری ، معزز ججز صاحبان اور کورٹ رپورٹرز حضرات سب کو عاصمہ جہانگیر کی کمی شدت سے محسوس ہو گی۔بڑے بڑے سیاسی نوعیت کے مقدمات کے علاوہ عاصمہ جہانگیر نے غریب اور مسکین لاپتہ افراد کے لواحقین کے وہ مقدمے بھی لڑے جن کا فیصلہ آج تک نہیں آیا اور جن میں دئیے گئے احکامات پر عملدرآمد کیلئے لواحقین در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ کامیاب وکلاء تحریک سے لیکر آج تک عاصمہ جہانگیر نے جس انداز میں خود کو خاتونِ آہن ثابت کیا ہے، ایسی جرات اور بہادری کا مظاہرہ عدالتی تاریخ میں شاید کسی مرد وکیل نے بھی نہ کیا ہو۔عاصمہ جہانگیر کے اسی جرأتِ اظہار کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی اپنے پیغام میں تسلیم کیا۔ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ نے کہا کہ ہم انسانی حقوق کی جنگ لڑنے والی ایک قدآور شخصیت سے محروم ہو گئے ہیں جس نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اپنا لوہا منوایا اور اسی لئے انہیں کبھی بھلایا نہیں جا سکے گا۔ عاصمہ جہانگیر نے ہمیشہ خندہ پیشانی سے مشکل سے مشکل سوالات کا سامنا کیا۔ کئی بار سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کیلئے انہوں نے جب حکومت اور عدلیہ کے سامنے معروضات پیش کیں تو ان پر تنقید بھی کی جاتی تھی۔ مگر عاصمہ نے ہمیشہ مسکرا کر ایسے سوالات کے جواب دئیے۔ کئی بار بہت پیار سے راقم کی کمر تھپتھپا کر حوصلہ افزائی کی۔ پاکستان کے سیاہ فوجی ادوارِ حکومت اور انکی باقیات کی جاری سازشوں سے متعلق عاصمہ جہانگیر جس جرأتِ اظہارسے کام لیتی تھیں، انہیں دیکھ کر بہت سے سیاستدانوں، سماجی کارکنوں اور صحافیوں کو بھی سچ بات کہنے کی ہمت ملتی تھی۔ آج عاصمہ جہانگیر ہم میں نہیں اور شاید یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ انکے جانے کے بعد جمہوریت اور آئین و قانون کی بالادستی کی دلیل ،غلیل کی حامل قوتوں کے آگے پہلے جیسی نہیں رہے گی۔ عاصمہ کی جدوجہد کے پیشِ نظر پاکستانی قوم کو انہیں ایسی شان وشوکت سے رخصت کرنا چاہیے ، جس شان وشوکت سے انہوں نے اپنی زندگی گزاری۔کاش کہ ہم لوگ ایسی عظیم شخصیات کو انکی زندگی میں ہی پہچان کر وہ رتبہ دیں جسکے وہ حقدار ہیں۔ ہم نے بطور قوم آج تک ان لوگوں کو تمغہ ء جمہوریت سے نوازا جنہوں نے وہ تمغہ سینے پر سجا کر جمہوریت کے خلاف گھٹیا اور گھناؤنی سازش کی۔حکومت پاکستان کو عاصمہ جہانگیر کے نام سے ایک ایسے میڈل کا اجراء کرنا چاہیے کہ جو جمہوریت اور آئین کی بالا دستی کیلئے اپنی زندگی وقف کرتے ہیں۔عاصمہ جہانگیر اب ہمیں دکھائی دیں گی نہ سنائی دیں گی مگر انکی باتیں ایک گونج بن کر بار بار ہماری سماعتوں سے ٹکراتی رہیں گی۔