فرزانہ چودھری
نجی ٹی وی چینلز پر ڈراموں کی بھرمار نے نئے آرٹسٹوں کے لیے شوبز کی دنیا میں متعارف ہونے کی راہیں ہموار کی ہیں۔ ورنہ ایک زمانہ تھا جب ایک پی ٹی وی چینل کے باہر آرٹسٹ باری اوراندر بلاوے کے انتظار میں بنچوں پر بیٹھے ہوتے تھے۔ ایک سین حاصل کرنے کیلئے نہ جانے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے تھے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس زمانے میں پی ٹی وی کے ڈراموں کی دھوم پڑوسی ملک سمیت سمندر پار بھی تھی۔ کئی ایک ڈرامہ سیریلز کے نشر ہونے کے وقت سڑکیں سنسان ہوجاتیں۔ جب نجی ٹی وی چینلز کا دور آیا تو ان کے ڈراموں میں کہانی کی بجائے نمودونمائش کوترجیی دی گئی جس سے ڈراموں میں حقیقت کا رنگ ماند پڑ گیا اور ناظرین کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہے مگر جیسے ہی ڈراموں کی کہانیاں حقیقت کے قریب تر ہوئیں وہ کسی حد تک ناظرین کی توجہ حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہے۔ لیکن یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگاکہ نجی چینلز کے ڈراموں کی کہانیوں کی اکثریت بے جان اور فطری تقاضوں سے کوسوں دور دکھائی دیتی ہیں تاہم کبھی ڈرامے حقیقت کے عکاس بھی ہوتے ہیں۔ ان دنوں نجی چینل سے نشر ہونے والی ڈرامہ سیریل ’’خانی‘‘ ناظرین کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جس کی کہانی نہ صرف حقیقت پر مبنی ہے بلکہ کراچی کے ایک واقعہ قتل سے مماثلت بھی رکھتی ہے۔ اگرچہ مذکورہ ٹی وی چینل کی جانب سے یہ وضاحت کی جاتی ہے کہ اس کھیل کا کسی واقعے یا شخصیت سے کوئی واسطہ نہیں لیکن قرین قیاس یہی ہے کہ مرکزی خیال اسی واقعہ سے ماخوذ ہے۔
’’خانی‘‘ کا کردار معروف اداکارہ ثناء جاوید بڑی خوبصورتی سے نبھا رہی ہیں۔ یہ ان کی اداکارانہ صلاحیتوں کا اعتراف ہے کہ مذکورہ سیریل ناظرین کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرانے میں کامیاب بھی ہے۔ ڈراموں کی کہانیاں معاشرے کے حقیقی اور تصوراتی کرداروں کی عکاسی کرتی ہیں اور معاشرے کی تمام برائیوں اور اچھائیوں کا ترجمان ہوتی ہیں۔ ڈرامہ سیریل ’’خانی‘‘ کی کہانی کے پس منظر میں ہماری قومی سیاست کی اصلیت بھی نظر آتی ہے۔ صلح اور معافی نامے کا طریقہ وڈیروں کی متکبرانہ ذہنیت کی عکاس ہے۔ امراء کے بچوں کو سکیورٹی اور اسلحہ سے لیس کرنے کا کلچر اب بھی متمول طبقے میں پایا جاتا ہے۔ رشتہ مانگنے کا ایسا توہین آمیز طریقہ کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ وڈیرے غریبوں کو کیسے حشرات الارض سمجھتے ہیں‘ سیاستدان مرد ہی سنگدل اور ظالم نہیں ہوتے ان کی خواتین خانہ میں رعونت‘ بے حسی اور بے رحمی پائی جاتی ہے۔ ’’خانی‘‘ کے گھر والوں اور رشتہ داروں کا ناطقہ بند کرنا یوں لگتا ہے کہ ظالم ظلم کے جواز کے لیے مختلف طریقے سوچتا ہے۔ یہ تمام پہلو ڈرامہ سیریل ’’خانی‘‘ کی عکاسی کرتے ہیں۔
’’خانی‘‘ میں صنم علی خان کے کردار کو حقیقت کا رنگ بھرنے والی باصلاحیت ماڈل واداکارہ ثناء جاوید کا کہنا ہے کہ ڈرامہ معاشرے کے مختلف واقعات اور کرداروں کی داستان ہوتا ہے۔ تب ہی تو ناظرین اس کو اپنی کہانی سمجھتے ہوئے اس کرادر کے جذبات واحساسات کے محسوس کرتے ہوئے اس میں کھو جاتے ہیں۔ مگر ایسا تب ہی ہوتا ہے جب ڈراموں کے کرداروں میں فن کی روح پھونکنے والا فنکار باصلاحیت ہو۔ کسی بھی ڈرامہ کی شہرت و مقبولیت کا انحصار دو باتوں پر ہوتا ہے ایک ڈرامے کی کہانی جو معاشرے کے واقعات کی بھرپور عکاسی کرتی ہو اور دوسرا ان کرداروں کو حقیقت سے قریب نبھایا جائے۔ میں سمجھتی ہوں ’’خانی‘‘ ان دونوں معیارپر پورا اترتا ہے۔‘‘
ثنا جاوید نے کہا ’’ ڈرامے معاشرے میں ہونے والے واقعات کا عکاس ہوتے ہیں عوام الناس میں مقبول ہو نے والے واقعات جب کہ ڈرامہ نگار کی تحریر میں سماتے ہیں تو یقیناً ڈراموں کے کرداروں میں دکھائی دیتے ہیں۔ ڈرامے حقیقی اور تصوراتی کہانیوں کا حسین امتزاج ہوتے ہیں اس لیے اس کی کچھ کردار حقیقی زندگی کے تو کچھ تصوراتی زندگی کے ہوتے ہیں جوناظرین کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیتے ہیں۔‘‘
فلم اور ٹی وی اداکارہ و ماڈل ثناء جاوید نے 2012ء میں شوبز کی دنیا میں قدم رکھا ۔ بقول ثناء جاوید کہ انہوں نے اس شعبہ کو سوچ سمجھ کر اپنایا۔ ان کا پہلا ڈرامہ ’’ میراپہلا پیار‘‘ تھا۔ اس میں ان کی بہترین اداکاری نے ان کیلئے شہرت کی بلندیوں کو چھونے کی راہیں ہموار کردیں۔ اس کے بعد ان کے یکے بعد دیگرے ڈرامہ سیریلز نشر ہوئے جن میں رنجش ہی سہی‘ مینیو کا سسرال‘ میری دلاری‘ حصار عشق‘ پیارے افضل‘ مانا کا گھرانہ اور ذرا یاد کر قابل ذکر ہیں۔ وہ کمرشلز ماڈلنگ میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکی ہیں۔ انہوں نے کئی ایک مشہور ترین برانڈز کے کمرشلز میں ماڈلنگ کی ہے۔ وہ ٹی وی ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے کے علاوہ سلور سکرین پر فلم ’’ مہرونساوی لوب یو‘‘ دانش تیمور کے ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ کرچکی ہیں۔
ماڈل ،فلم اور ٹی وی اداکارہ ثناء جاوید کا کہنا ہے فلم اور ٹی وی ڈراموں میں تفریح کے ساتھ ساتھ اصلاح کا پہلو بھی نمایاں ہوتا ہے۔ اس لئے اس شعبہ سے منسلک لوگ ملک و قوم کی خدمت بھرپور انداز میں کرتے ہیں کیونکہ یہ میڈیم معاشرے کو اپنی ثقافت‘ اخلاقیات اور اقدار کی روایات کا سبق دینے اور ان کو زندہ رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ مجھے تفریحی اور اصلاحی ڈرامہ سیریلز میں کام کرکے بے حد خوشی ہوتی ہے ۔ خوش قسمت ہوں کہ مجھے ڈائریکٹر ز اور ساتھی فنکاروں کا بھرپور تعاون حاصل رہا ہے۔ ہر بار مختلف کردار کرنے کی خواہش رکھتی ہوں۔ کرداروں میں ورائٹی کو پسند کرتی ہوں کیونکہ اس سے آرٹسٹ کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ میں اپنی اداکاری کے نقوش ناظرین کے ذہنوں پر نقش کرنے کی جستجو میں رہتی ہوں۔ خود کو خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ میں نے بہت کم عرصہ میں ناظرین کا بہت سارا پیار اپنے دامن میں سمیٹا ہے ۔ میرا شوبز میں آنے کا مقصد شہرت کے آسمان پر بسیرا کرناہے۔ اللہ کا شکر ہے میرا یہ سفر کامیابیوں کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ ایسا کردار کرنے کی خواہش ہے جو میرے نام کو پرستاروں اور شوبز کی دنیا میں امر کردے۔
گفتگو سمیٹتے ہوئے ثناء جاوید نے کہا ’’میں اپنے کام کی خودنقاد ہوں پچھلی خامیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے کام میں بہتری لاتی ہوں۔ دوسروں میں خامیاں تلاش کرنا مجھے پسند نہیں ہے۔ مثبت سوچ کی مالک ہوں۔ اپنے کام کو بہتر سے بہتر کرنے کے بارے میں منصوبہ بندی کرتی رہتی ہوں۔ شوبز کی دنیا میں اڑان تو بھر چکی ہوں اب شاہین کی سی اڑان کیلئے کوشاں ہوں۔ فلم ہو یا ڈرامہ حقیقی کہانیاں اور منفرد کردار فنکاروں کی صلاحیتوں کو جلا بخشتے ہیں۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ فطری طور پر شہرت‘ مقبولیت‘ انفرادیت کا متمنی ہوتا ہے۔ مجھے بھی شہرت کی تنما شوبز کی دنیا میںآئی۔