لاہور(ایف ایچ شہزاد سے) سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدرماہر قانون اور حقوق انسانی کی علمبردار عاصمہ جہانگیر تاریخی اعتبار سے بڑے بڑے مقدمات کا حصہ بھی رہیں ۔ جنرل یحییٰ خان کے دور حکومت میں انہوں نے اپنے والد ملک غلام جیلانی کی غیر قانونی نظربندی کیخلاف رٹ دائر کی تھی اور پھر اس پر جو فیصلہ آیا تھا اس کا ابھی تک پاکستان کی عدلیہ کے فیصلوں میں حوالہ دیا جاتا ہے جو کہ عاصمہ جیلانی کے نام سے مشہور ہے عاصمہ جہانگیر جمہوریت کی بحالی کی تحریک کا حصہ بنیں اور ڈکٹیٹر ضیا الحق کے خلاف تحریک کیلئے کام کیا۔تحریک بحالی جمہوریت میں جدوجہد کرنے پر1983میںوہ جیل گئیں۔اس دوران انہیں قید و بند کی صعوبتوں کا بھی سامنا رہا۔ 1993 میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی صدر منتخب ہوئیں۔عاصمہ جہانگیر میمو کیس میں حسین حقانی کی جانب سے پیش ہوئیں۔پسند کی شادی کرنے والے اہم مقدمات میں وہ پیش ہوتی رہیں ان میں ایک صائمہ ارشد لو میرج کیس بھی تھا۔خواتین پر ظلم کے خلاف قانون کے ذریعے آواز بلند کی۔سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے ایمرجنسی کے نفاذ کو بھی عاصمہ جہانگیر نے چیلنج کیا تھا اس کے علاؤہ عاصمہ جہانگیر لاپتہ افراد کے کیسز اور بیرون ملک جیلوں میں قیدیوں پاکستانیوں کے حقوق کی بھی عدالتی جنگ لڑتی رہیں ۔اگرچہ کچھ حلقوں کی طرف سے ان پر ویسٹرن ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا الزام بھی لگتا رہا مگر انہوں نے ہر الزام کا موثر جواب دیا۔انہوں نے بطور وکیل انسانی حقوق اور آئینی مقدمات سے متعلق زیادہ مقدمات لڑے۔اعلی عدالتوں نے متعدد مقدمات میں ان کو عدالتی معاون مقرر کیا۔انہوں نے چید روز پہلے دستور کے آرٹیکل62ون ایف کی تشریح سے متعلق مقدمے میں دلائل دیئے اور موقف اختیار کیا کہ مذکورہ آرٹیکل کے تحت پانچ سال سے زیادہ نا اہلی نہیں ہونی چاہئیے۔ وہ دو کتابوں کی مصنف بھی تھیں۔پاکستان کی قانون سازی میں وہ اہم نقاد اور مبصر رہیں۔ان کو ہلال امتیاز سے بھی نوازہ گیا۔اس کے علاوہ انہوں نے کئی انٹر نیشنل ایوارڈ بھی حاصل کئے۔جس میں1995میں حاصل کیا گیا مارٹن انالمز ایوارڈ بھی شامل ہے۔وہ انٹر نیشنل کرائسز گروپ کی ٹرسٹی بھی تھیں۔عاصمہ جہانگیر ناصرف ایک معروف ماہر قانون دان بھی تھی بلکہ انھوں نے اپنی پوری زندگی انسانی حقوق، خواتین‘بچوں اور مظلوموں کے حقوق کے لیے لڑتے ہوئے گزار ی جن کا اعتراف نہ صرف وکلا برادری کررہی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی ان کی خدمات کو سراہا جارہا ہے ۔