واقعی… ایک عہد کی سرگذشت

ویسے تو جس نے زندگی میں کچھ نہیں کیا یا کچھ کئے بغیر زندگی گزار دی ہے وہ بھی اپنے گزرے ہوئے شب و روز کو ایک عہد کی سرگذشت کہہ سکتا ہے اور شاید یہ سرگذشت پڑھنے سننے والوں کا زیادہ بھلا کر دے کیونکہ ایسے ہی کسی نے نہیں کہا…ع
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں
اور ہمارے ہاں تو واقعی کچھ نہ کرنے والے ایسے ایسے کمال کرتے نظر آئیں گے کہ وہ طبعی زندگی گزرنے یا گزارنے کو بھی اپنا کمال کہتے ہیں اور اگر وہ پچاس سال گزار لیں تو اپنے ان کمالات کو اس طرح پیش کرتے ہیں ؎
یہ نصف صدی کا قصہ ہے دوچار برس کی بات نہیں اور تاثر دیتے ہیں کہ کسی شاعر کا یہ مصرعہ انہی کے لئے لکھا گیا ہے میں جس عہد کی سرگذشت کی بات کرنے لگا ہوں وہ قیام پاکستان سے شروع ہو کر ابھی ختم نہیں ہوا اور سرگذشت لکھنے یا سنانے والے اللہ کے فضل و کرم سے صحت مند، چاک و چوبند اور ہوشمند ہے مگر سرگذشت کو 1915ء تک یعنی 68 سال تک پہنچ کر ختم کرنے یا انٹرول کرنے کی وجہ اس سرگذشت میں اگر کہیں درج ہے تو میری نظروں میں نہیں آتی بہرحال یہ اتنا ضروری بھی نہیں کہ وجہ بتائی جائے۔
یہ سرگذشت بتانے والے قاضی جمیل اطہر سے میرا کبھی قریبی تعلق نہیں رہا بلکہ اگر تعلق کو محض صاحب سلامت سمجھیں تو یہ صاحب سلامت میں طویل دورانئے کے وقفوں کی وجہ سے شناسائی تک ہی پہنچ پائیگی۔ مگر مجھے یہ شخص ہمیشہ بہت بھلا لگا۔ اپنی خوبصورت تحریروں کی وجہ سے اپنی پیشہ وارانہ ہنر مندی کی وجہ سے اپنی شرافت اور شائستگی کی وجہ سے‘ اپنی مسکراہٹ اور ہر دلعزیزی کی وجہ سے۔ محنت میں عظمت کا شعور رکھنے کی وجہ سے۔ کینہ اور حسد کو اپنے قریب نہ پھٹکنے دینے کیوجہ سے یا پھر بقول مظفر محمد علی مرحوم تھوڑی سی ’’جرأت اور بہت ساری‘‘ تجارت کی وجہ سے۔ مظفر محمد علی مرحوم کو فقرے بازی پر جو عبور حاصل تھا اس میں شائستگی اور احترام کو ہمیشہ اولیت حاصل رہی چنانچہ جمیل اطہر کے دونوں اخبارات ’’جرأت اور تجارت‘‘ کے معروضی حالات اور ایڈیٹر کے دونوں سے یکساں سلوک کے باوجود دونوں کی یافت میں فرق کو جس خوبصورتی سے مظفر محمد علی نے واضح کیا وہ اس سرگذشت میں شاید اس لئے نظر نہیں آئی کہ شاید مظفر محمد علی بھی میری طرح جمیل اطہر کو دور سے پسند کرنے اور اپنی اس پسند کو بتانے میں شرمانے کے مرحلے سے آگے نہ بڑھا۔ ویسے تویہ سرگذشت ہمہ جہت ہے۔ مدیروں کا بھی ذکر ہے اور پیروں کا بھی۔ نثر نویسوں کا بھی ذکر ہے اور شاعروں کا بھی۔ بیوروکریٹ اور سیاستدان کے ساتھ ساتھ اپنے اساتذہ اور احباب میں چیدہ چیدہ لوگوں کو شامل کیا گیا ہے۔ میں صحافت کے اس ہنرمند مدیر کی تربیت کے حوالے چند باتوں سے یہ نتیجہ اخذ کرکے کہ اس کے پڑھنے سے نوآموز صحافیوں اور صحافت میں کسی منزل بامقصد کو نظر انداز کرکے یا سرے سے اس سے بے خبر ہو کر زندگی گذار دینے والوں کی رہنمائی ہو سکتی ہے۔ میری مراد صحافت کے اس تربیتی اور عملی پہلو سے ہے جو قاضی صاحب کو میسر آئی۔
احمد ندیم قاسمی کے متعلق اپنے تعلق کو جمیل اطہر نے زمانے کی اس بے بصیرتی کا حوالہ بنا دیا ہے جس میں اندھے دوربین بہرے اپنی سننے کی حس کو باقی حسوں سے زیادہ تیز اور گونگے اپنی بلند آہنگی کے باعث درجہ کمال پر پہنچنے کے ایسے دعوے کرتے نظر آتے ہیں کہ دیکھنے سننے اور بولنے والوں کی واقعی بولتی بند ہو جاتی ہے۔ زوال پذیری کی اس سے بڑی شہادت کیا ہوگی کہ ایک معتبر صحافی بڑی درد مندی اور دلسوزی سے یہ تسلیم کرے کہ احمد ندیم قاسمی نے اردو روزنامے کے مدیر کی حیثیت سے جو کام کیا وہ اب نظروں سے اوجھل ہوتا جا رہا ہے اور اکثریت کو تو اب یہ بھی یاد تک نہیں کہ احمد ندیم قاسمی مارچ 1953ء سے اپریل 1959ء تک پاکستان کے سب سے بڑے ترقی پسند روزنامے ’’امروز‘‘ کے ایڈیٹر رہے۔ امروز کی یہ پہچان اگرچہ کمیونسٹ اور اشتراکی نظریات کے حامل صحافیوں کا گڑھ ہونے کی وجہ سے تھی مگر قاضی صاحب نے اسے صحافتی ترقی پسند ہونے کا ٹائٹل اس لئے دے دیا ہے کہ روزنامہ امروز اس وقت بھی جہازی سائز پر شائع ہوتا تھا جب سارے دوسرے روزنامے قدرے چھوٹے سائز پرشائع ہوتے تھے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس زمانے میں صرف امروز ہی وہ واحد اخبار تھا جو اپنے نمائندوں کو سات روپے فی کالم کے حساب سے ادا کرتا تھا۔ قاضی صاحب نے اگرچہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ کے نامہ نگار کے طور پراس اخبار سے ایک روپیہ فی انچ معاوضے کا ذکر کیا ہے جو انہیں بطور نامہ نگار ملتا تھا بہرحال امروز نے اپنے نامہ نگاروں کی تربیت اور رہنمائی کے لئے 31 مئی 1958ء کو جو ہدایت نامہ جاری کیا آج مختلف اخبارات کے ہیڈ کوارٹرز اور ٹیلی ویژن میں خبروں اور تبصروں سے وابستہ معتبر افراد ان بنیادی اصولوں سے یا تو بیگانہ نظر آئیں گے یا ’’ہم چو ما دیگرے نیست‘‘ کے زعم میں مبتلا۔ اس ہدایت نامہ کے بعض نکات کو آج کے دور میں پڑھنا ان پر غور و فکر کرنا اور پھر عمل کرنا صحافت کی گرتی ساکھ اور بے اثری کو ختم کر سکتا ہے۔ ایڈیٹر کی طرف سے نامہ نگاروں کو سمجھایا گیا کہ آپ کے علاقے کی ہر شکایت خبر نہیں۔ شکایات کو ایڈیٹر کی ڈاک کے کالم میں لکھ کر بھیجئے اس طرح سیاسی معاشرتی ادبی تنظیموں کے اجلاس منعقد ہونے کا اعلان خبر نہیں اطلاع ہوتی ہے۔ اسے اطلاعات کے کالم میں شائع کرانے کے لئے علیحدہ کاغذ پر بھیجیں۔
خبریں جتنی مختصر ہوں گی اتنی ہی بہتر ہونگی جو خبریں ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان بھیج سکتا ہے یا بھیجتا ہے ان کے بھیجنے میں اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ معمول کی ان ہدایات کے بعد احمد ندیم قاسمی بطور ایڈیٹر بعض پیشہ وارانہ ہدایات دیتے ہیں اس سلسلہ میں پہلی ہدایت صحافت کے وقار اور اخبار کی پالیسی کے متعلق ہے لکھتے ہیں ’’ہمارے اخبار میں سیاسی قیاس آرائیوں کیلئے کوئی گنجائش نہیں اسلئے مقامی خیالات سے متاثر ہو کر سیاسی قیاس آرائیاں بالکل نہ کیجئے۔ کسی خاص افسر کی تعریف یا برائی امروز کے صفحات پر شائع نہیں ہوگی۔ کسی واردات کی خبر میں جب تک ملزم کا نام اور دفعہ کے تحت کارروائی عمل میں آئی ہے درج نہ ہو تو خبر ادھوری ہوتی ہے ماسوا ان خبروں کے جن میں ملزم کا پتہ نہ چلے۔ وہ مفرور ہو اور پولیس نے کس دفعہ کے تحت مقدمہ درج کیا ہو۔ مقدمے کی کارروائی بھیجنے کی ضرورت نہیں۔ عدالت کی خبروں میں صرف مقدمہ شروع ہونے اور مقدمہ کے فیصلے کا محض بھیجنے کی ضرورت ہے۔
اس ہدایت نامہ سے پہلے وہ 31 دسمبر 1957ء کو یہ خط اپنے نامہ نگاروں کو بھیج چکے تھے‘‘ آپ کے ضلع میں صرف قتل اور اغوا کے واقعات نہیں ہوتے اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ لاکھوں باشندوں کے سینکڑوں دوسرے مسائل جو مار دھاڑ کے واقعات سے زیادہ اہم اور عدالتوں میں چھوٹے چھوٹے مقدمات کے فیصلوں سے کہیں زیادہ لائق توجہ ہیں۔ روزانہ زندگی کے مسائل میں ضروریات زندگی کی مشکلیں، ذرائع معاش کی تنگ دامانی، چھوٹی صنعتوں کی زبوں حالی، مزارعین، کاشتکاروں اور چھوٹے مالکوں کی مجبوریاں، سرکاری حکام کی دست درازیاں، سیم و تھور کٹائو اور سیلاب آپ کے سامنے موضوعات کا ایک چمن کھلا ہے میں سوچتا ہوں اگر سیاسی قیاس آرائیاں بند ہو جائیں، الزام تراشی، بہتان بازی پر پابندی لگ جائے تو ٹیلی ویژن کے آدھے پروگرام ختم ہوجائیں اور اخبارات کے صفحات بھی کم ہو جائیں۔
مختصر خبریں جو خبر کی روح تھی وقت، جگہ اور نیوز پرنٹ کی بچت کے علاوہ یاوہ گوئی کی حوصلہ شکنی کے باعث بن جائے۔ افسروں کی تعریف یا برائی کرنے پر پابندی سے ان کالم نگاروں کی چھٹی ہو جائے جن کے کالم میں اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ مقدمہ کی کارروائی کو چھاپنے یا ٹیلی ویژن میں بریکنگ نیوز بنانے کی وجہ سے ہی اعلیٰ ترین عدلیہ کے ججوں کا ہر ہر لفظ پر تبصرہ اور ہر دھمکی خبر بنتی رہی اور اس کو جوڈیشل ایکٹوازم کا نام دیا گیا۔ سپریم کورٹ کی تاریخ میں تین چیف جسٹس اس حوالے سے میڈیا پرچھائے رہے۔ جسٹس نسیم حسن شاہ نے اس عدالتی بدعت کا آغاز نوازشریف کی پہلی برطرفی پرقائم مقدمہ میں کیا اور جج نہیں انکے فیصلے بولتے ہیں کو گہرا دفن کرکے ثابت کردیا کہ جج بھی بولتے ہیں۔ جسٹس افتخار محمد چودھری نے ازخود نوٹس لیکر لوگوں کو بے عزت کرکے میڈیا پر عملاً قبضہ کرلیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اس شہرت کو برقرار رکھنے کیلئے اپنی سیاسی جماعت بنا لی مگر کرسی سے وابستہ ان کی عزت کرسی سے ہٹتے ہی ختم ہوگئی۔ اس سلسلہ کے آخری شہسوار جسٹس ثاقب نثار تھے جو افتخار چودھری سے بھی چار ہاتھ آگے چلے گئے۔ بغیر کسی کی غلطی کے اسکی بے عزتی کرنے کی شہرت حاصل کرنیوالے اس قبیل کے اللہ کرے وہ آخری جج ثابت ہوں۔
نئے چیف جسٹس نے اگرچہ ان کے فل کورٹ ریفرنس میں انکے ساتھ شب و روز گزارنے کو ’’ٹونز‘‘ کا نام دیا مگر یہ پہلا ’’ٹونز‘‘ جنکی عادتیں مختلف تھیں ایک ازخود نوٹس میں اپنی آئینی و قانونی حیات سمجھتا تھا دوسرے نے اسے سرے سے ختم کرکے ثابت کیا ہے کہ آئین و قانون کی عملداری کو یقینی بنانا جج کا کام ہے اور یہ کام ازخود نوٹس لئے بغیر‘ لوگوں کو بے عزت کئے بغیر بھی کیا جاسکتا ہے۔ یہ الگ سے سرگذشت ہے جو کوئی قاضی ضرور لکھے گا۔

ای پیپر دی نیشن