نوازشریف کو مشرف سے چھڑوانے والے صرف کلنٹن تھے

پیر کی صبح جب یہ کالم چھپا تو اس کی اشاعت کے چند ہی لمحوں بعد ایک مصدقہ ذریعہ سے شکایت ملی کہ فواد چودھری سے میرا شکوہ درست نہیں۔
حال ہی میں کابینہ کا جو اجلاس ہوا تھا اس میں وزیر اطلاعات نے بقول میرے ’’ذریعہ‘‘ کے سوئی نادرن گیس کی طرف سے صارفین کو جنوری کے آغاز میں بھیجے بلوں کے خلاف خوب دہائی مچائی۔ فریاد کرتے ہوئے انہوں نے اپنے ساتھیوں کو یہ حقیقت یاد دلانے کی بھی ہر ممکن کوشش کی کہ ان بلوں سے مضطرب ہوئے لوگوں کی بے پناہ تعداد نے جولائی 2018کے انتخابات میں تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا۔’’ہماری حکومت‘‘ مگر مڈل کلاس کو مشکلات کی جانب دھکیلتی نظر آرہی ہے۔چند باخبر لوگوں سے فون پر ہوئی گفتگو کی بدولت مذکورہ اطلاع کی بالآخر تصدیق ہوگئی۔ صحافتی اخلاقیات کا تقاضہ تھا کہ اس کالم کے آغاز ہی میں وضاحت ہوجاتی۔ ارادہ باندھ لیا تھا مگر فواد چودھری نے پیر ہی کے روز پاکستانی وزیر اعظم کی لبنانی ہم منصب سے دوبئی میں ہوئی ملاقات کی ’’تفصیلات‘‘ بیان کردیں۔ انہوں نے اس ضمن میں جو بھی کہا اس کا ایک ایک لفظ درست ہوگا۔ مجھے اس گفتگو کی تفصیلات مگر پبلک میں لانے سے بہت دُکھ ہوا۔ماتھا میرا پیر کے روز شاہ محمود قریشی کے ایک بیان کو پڑھ کر ہی ٹھنک گیا تھا۔دوبئی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ہمارے وزیر خارجہ نے بغیر کسی معقول وجہ کے ازخود انکشاف کیا کہ لبنانی وزیر اعظم سعد حریری سے ملاقات کے دوران پاکستان کے وزیر اعظم نے جانے کیوں اسے یہ بتانا ضروری سمجھا کہ ان کے ملک میں ان دنوں ایک بارپھر کسی این آر او کی باتیں ہورہی ہیں۔ ایسا ہونا مگر ممکن نہیں۔رپورٹروں کو دو جمع دو کرکے چار نکالنے کی عادت ہوتی ہے۔شاہ محمود قریشی کے بیان سے تاثر لہذا یہ ملا کہ شاید لبنان کے وزیر اعظم نے پاکستان کے وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران نواز شریف کی جان بخشی کے امکانات کا ذکر کیا ہوگا۔ پاکستانی وزیر اعظم اس کی شدت سے تردید پر مجبور ہوئے۔وزیر اطلاعات کو پیر کے روز شاید اسی تاثر کو مزید شدت سے رد کرنے کے لئے پاکستانی اور لبنانی وزیر اعظم کے مابین ہوئی گفتگو کی تفصیلات منکشف کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ان تفصیلات کے مطابق لبنانی وزیر اعظم نواز شریف کو مشرف کے دور میں ملے این آر او کے حوالے سے اپنے کردار پر ’’توبہ‘‘ کرتے ہوئے محسوس ہوئے۔ ان کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم مشرف کے ساتھ ہوئے معاہدے پر ایمان داری سے عمل نہ کر پا ئے۔ مبینہ طورپر اپنے وعدے پر قائم نہ رہنے والے نواز شریف پر اب لبنانی وزیر اعظم اعتبار کرنے کو ہرگز تیار نہیں۔دوبارہ کہے دیتا ہوں کہ ٹھوس اطلاعات تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے میں اس قابل نہیں کہ فواد چودھری کی جانب سے بیان ہوئی پاکستانی اور لبنانی وزیر اعظم کے مابین ہوئی گفتگو کی تفصیلات کی تردید یا تصدیق کرسکوں۔ ایک عام پاکستانی ہوتے ہوئے مگر یہ اصرار کرنے کا حق رکھتا ہوں کہ اگر یہ گفتگو واقعتا ہوئی بھی تھی تو اسے پاکستان کے وزیر اطلاعات کی وساطت سے پبلک میں نہیں آنا چاہیے تھا۔نواز شریف سے نفرت کریں یا محبت۔ٹھوس حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ وہ 20کروڑ سے زائد آبادی والے پاکستان کے تین بار منتخب ہوئے وزیر اعظم رہے ہیں۔ ہم بلاشبہ اس وقت بے تحاشہ معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ عالمی برادری میں لیکن ہماری بے پناہ اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی قوت کو دُنیا کا کوئی ملک ’’ہلکا‘‘ نہیں لے سکتا۔لبنان اپنی تاریخ اور جغرافیائی حیثیت کی بدولت یقینا ایک اہم ملک ہے۔ اس ملک کی سیاسی اور اقتصادی حقیقتوں کی وجہ سے مگر لبنان کے وزیر اعظم کی ہرگز کوئی خاص وقعت نہیں۔فقط اتنا یاد دلانا ہی کافی ہوگا کہ گزشتہ برس موصوف سعودی عرب تشریف لے گئے تھے۔ وہاں ٹی وی پر نمودار ہوکر انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ کا اعلان کردیا تھا۔ ان کے ’’استعفیٰ‘‘ والے اعلان کے بعد فرانس کے صدر متحرک ہوئے اور سعد حریری سعودی عرب سے لوٹ کر بیروت کے وزیر اعظم کے دفتر میں بیٹھ گئے۔ ایک ایسا وزیر اعظم جو فرانس کے صدر کی منت سماجت کے طفیل اپنے عہدے پر بحال ہوا ہو،پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم کی ممکنہ جان بخشی کا تذکرہ کس حیثیت میں کرسکتا ہے؟ فرض کیا اس نے کر ہی دیا تھا تو ہماری جانب سے اس کا سرکاری سطح پر ذکر ہرگز مناسب نہیں تھا۔جنرل مشرف کے 12اکتوبر1999والے ٹیک اوور کے بعد میں شاید پہلا رپورٹر تھا جس نے ایک انگریزی اخبار کے لئے کالم لکھتے ہوئے ستمبر2000سے نواز شریف کے ساتھ کسی ممکنہ ڈیل کو تواتر سے اشاروں کنایوں میں بیان کرنا شروع کردیا تھا۔ اعلیٰ ترین حکومتی حلقوں سے اس ممکنہ ڈیل کی تضحیک بھری تردید ہوتی رہی۔میں اپنے دعویٰ پر ڈٹا رہا کیونکہ مجھے ڈیل کی باتیں اہم ترین سفارتی حلقوں کے توسط سے وصول ہورہی تھیں۔ہررپورٹر کی طرح میں نے بھی غالبؔ کی طرح ’’جو مال اچھا ہے‘‘ کو یہ سوچ کر ذہن کے ایک گوشے میں احتیاط سے باندھ رکھا ہے کہ اگر کوئی کتاب لکھنے کا موقعہ ملا تو استعمال کیا جائے گا ۔ میری ماں اللہ بخشے اکثر اس دن کا ذکر کیا کرتی تھیں جو پنجابی محاورے میں ’’کبڑے‘‘ پر کبھی نہیں آتا۔عمر گزرنے کے ساتھ شدت سے احساس ہورہا ہے کہ میں کوئی دھانسو کتاب لکھنے کے قابل ہی نہیں۔ الگ باندھ کر رکھے مواد کو لہذا بوقتِ ضرورت کالموں میں استعمال کرکے ذہن کا بوجھ ہلکا کیا جائے۔میں جنرل مشرف کے ابتدائی دورِ حکومت کے دنوں میں ضرورت سے زیادہ متحرک رپورٹر ہوا کرتا تھا۔ ان دنوں میسر رسائی کی بدولت بہت اعتماد سے یہ دعویٰ کررہا ہوں کہ نواز شریف کو جنرل مشرف کی قیدسے آزاد کروانے میں کلیدی کردار سابق امریکی صدر-کلنٹن- نے ادا کیا تھا۔باقی سب کہانیاں ہیں۔کلنٹن کی نواز شریف کے بارے میں ’’فکرمندی‘‘ کا آغاز کارگل بحران کے دنوں میں ہوا تھا۔ اس بحران پر 4جولائی 1999کے دن نوازشریف اور کلنٹن کے مابین ہوئے معاہدے کے ذریعے نبردآزما ہوا گیا تھا۔ وہ معاہدہ جنرل مشرف اور ان کے قریبی رفقاء کو ہرگز پسند نہیں آیا تھا۔ نواز شریف کو ان لوگوں کی ممکنہ ناراضی کا خوب احساس تھا۔ انہوں نے اس کا تذکرہ صدر کلنٹن سے کیا تو اس نے وعدہ کیا کہ کسی ’’انہونی‘‘ کی صورت وہ نواز شریف کی مدد کرے گا۔ دسمبر2000 امریکی صدر کلنٹن کا وائٹ ہائوس میں آخری مہینہ تھا۔وائٹ ہائوس چھوڑنے سے قبل اس سال کے ستمبر سے نواز شریف کے ساتھ کئے وعدے کو اس نے نبھانے کی کوشش شروع کردی تھی۔ لبنان کے وزیر اعظم نے اس ضمن میں فقط پیغامبر کا کردار ادا کیا تھا ۔ اہم ترین معاونت سعودی عرب کے پرنس عبداللہ سے مہیا ہوئی جو پاکستان کے ایٹمی تجربات کے بعد نوازشریف کے بہت قریب ہوگئے تھے۔میرا آج بھی یہ دعویٰ ہے کہ اگر کلنٹن کے زمانے ہی میں نائن الیون ہوگیا ہوتا تو وہ بھی نواز شریف کو فراموش کردیتا۔ ان کی جاں بخشی کی کوشش میں ہرگز ملوث نہ ہوتا۔ ’’ڈیل یا ڈھیل‘‘ کی بات کرتے ہوئے ہمیں ماضی کے ٹھوس حقائق کو ہمیشہ نظر میں رکھنا چاہیے۔آج ہم قطعاََ ایک مختلف تناظر میں جی رہے ہیں۔ اس تناظر میں یقین مانیں لبنانی وزیر اعظم کی قطعاََ کوئی اہمیت نہیں۔ اسے بین الاقوامی سطح پر اثرانداز ہونے کے قابل کردار بناکردکھانے کی ہمیں ضرورت نہیں۔خواہ مخواہ کی پوائنٹ سکورنگ اور وقت کا ضیاع ہے۔

ای پیپر دی نیشن