رجسٹرڈ نجی تولیمی اداروں کی رجسٹریشن فیس میں فی الوقت اضافہ نہ کیا جائے ، ریگولیٹری بل پر مشاورت کی جائے

راولپنڈی (عزیز علوی ۔ تصاویر ایم جاوید )آل پاکستان پرائیویٹ سکولز منیجمنٹ ایسوسی ایشن راولپنڈی ڈویژن کے رہنمائوں ابرار احمد خان ، شگفتہ اسد ، سکینہ تاج ، چوہدری امجد زیب اور ازوارہ کیانی نے کہا ہے کہ پنجاب بھر کے تعلیمی بورڈز میں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات نجی تعلیمی اداروں کے ہی ہوتے ہیں نجی تعلیمی ادارے سوشل سروسز سے تعلق رکھتے ہیںاس لئے انہیں کمرشلائزیشن کی کیٹگری سے نکالا جائے اس وقت ملک بھر میں98 فیصد نجی تعلیمی ادارے ماہانہ پانچ ہزار روپے سے بھی کم فیس وصول کرتے ہیں پنجاب حکومت پالیسیاں بنانے سے پہلے پانچ ہزار روپے کی ماہانہ فیس لینے والے سکولوں کے بارے میں خیال رکھے سپریم نے حالیہ فیصلے میں ان نجی تعلیمی اداروں کو فیسوں میں کمی اور گرمیوں کی تعطیلات کی فیس واپس کرنے سے مستثنٰی قرار دیا ہے جن نجی عمارتوں میں سکول قائم ہیں ان بلڈنگز کو کمرشل کیا گیا تو ان کے مالکان کمرشل کرایہ بڑہائیں گے جو نجی تعلیمی اداروں کی معاشی حالت کی تباہی کا باعث ہوگا حکومت پنجاب اپنے فیصلے پر بلا تاخیر نظر ثانی کرے اس ملک بھر کے کنٹونمنٹ بورڈز کی حدود میں چھ ہزار تعلیمی ادارے بند ہوچکے ہیں جن میں زیر تعلیم ایک لاکھ80ہزار سٹوڈنٹس ، ایک لاکھ20 ہزار اساتذہ اور 30 ہزار ٹیچنگ سٹاف متاثر ہوئے ہیں ہم چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ داد رسی کریں تمام پرائیویٹ سکول ایک طرح کی فیس نہیں لیتے کچھ سکول 15 ہزار روپے ، کچھ سکول 15 سو روپے اور کچھ سکول تو پانچ سو روپے فیس لے رہے ہیں لیکن حکومت ان سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک رہی ہے انہوں نے ان خیالات کا اظہار ایوان وقت میں کیاایپسماء رہنمائوں نے کہا کہ ہم تو مطالبہ کرتے ہیں اگر سرکاری سکول ٹھیک نتائج نہیں دے سکتے تو وہ بھی ہمیں دئے جائیں ہم پانچ ہزار میں ان سکولوں کے طلبہ و طالبات کا بھی رزلٹ بہترین کردیں گے ہماری کوشش ہے کہ اس وقت ہمارے ملک میں جو اڑہائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں انہیں تعلیمی دائرے میں لے کر آئیں لیکن حکومت پنجاب کے نت نئے اقدامات سے نجی شعبے کے سکولوں کیلئے مشکلات بڑہائی جا رہی ہیں ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ نجی تعلیمی اداروں کی فیسوں کے مطابق درجہ بندی کی جائے صوبائی حکومت نجی سکولوں میں بھی سہولتیں بہم پہنچائے نجی سکولوں کو صرف ضلعی محکمہ تعلیم رجسٹریشن کی سہولت دیتا ہے اس کے بعد ہمیں صرف دھمکیاں ملتی ہیں کہ فلاں فلاں شرائط پوری کریں ورنہ رجسٹریشن منسوخ کردی جائے گی نجی شعبے کو دھمکانے کی بجائے اس کی دیکھ بھال بھی صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے حکومت نے2014 ء کے ایکٹ کے تحت نجی تعلیمی اداروں کو پابند بنا رکھا ہے کہ وہ دس فیصد غریب بچوں کو بھی داخلے دیں اس ایکٹ کے تحت نجی تعلیمی اداروں کو کوئی رعائت نہیں دی گئی ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ موجودہ رجسٹرڈ تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن فیس میں فی الوقت کوئی اضافہ نہ کیا جائے ہمیں اطلاعات ملی ہیں کہ ریگولیٹری بل کی مشاورت میں نجی تعلیمی پنجاب ایجوکیشنل انسٹیٹیوشن ریگولیٹری اتھارٹی بل صوبائی کابینہ کو حمتی منظوری کیلئے بھجوایا گیا ہے بل میں تمام پرائیویٹ سکولوں کو کنٹرول اور مانیٹر کرنے کے بارے میں قانون سازی کی گئی ہے ہمارا مطالبہ ہے کہ اس بل کو منظوری سے پہلے نجی سکولوں سے مشاورت کی جائے سکولوں کو کمرشل ایریا میں نہیں ہونا چاہئے کیونکہ بچوں کے والدین قریب ترین علاقے میں سکول پسند کرتے ہیں پانچ فیصد ہی سالانہ فیس میں اضافہ رکھنا ہے تو پھر نجی تعلیمی اداروں کے ملازمین کی تنخواہوں ، رینٹ ، یوٹیلٹی بل میں اضافے بھی پانچ فیصد سالانہ پر رکھے جائیں نجی تعلیمی اداروں کی کیٹگری کے سلیب کو ان کی فیسیں پانچ ہزار ، دس ہزار ، 20 ہزار ، 30 ہزار ، 40 ہزار کی کیٹگری میں بنائی جائیں آل پاکستان پرائیویٹ سکولز منیجمنٹ ایسوسی ایشن راولپنڈی ڈویژن کے رہنمائوں نے کہا کہ والدین کی شکائت سکول مینوئل سے ہٹ کر کوئی اتھارٹی سننے کی مجاز نہ ہو بورڈوں کے امتحانات میں جو نجی تعلیمی اداروں نمایاں کارکردگی دکھائیں انہیں انعامات اور مراعات سے نوازا جانا چاہئے تاکہ حوصلہ افزائی بھی ہوسکے ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے کہ حکومت اپنی نگرانی میں نیشنل کریکلم کی روشنی میں یکساں نصاب تعلیم کیلئے گائیڈ لائن جاری کرے تاکہ پرائیویٹ سیکٹر اور پبلک سیکٹر میں مسابقت بن سکے انہوں نے کہا کہ گرمیوں کی طویل تعطیلات سے بھی نجی سکولوں کا سارا تعلیمی و انتظامی سسٹم تلپت ہوجاتا ہے مارچ اپریل اور مئی تک ہم بچوں کو بہترین تیاری کرانے کے مراحل طے کرتے ہیں لیکن جون میں اچانک طویل تعطیلات آجاتی ہیں جس کے بعد جب بچے واپس سکول آتے ہیں تو ان کا تعلیمی رجحان سست روی سے دوچار ہوچکا ہوتا ہے جنہیں دوبارہ تدریسی عمل میں فعال کرنے پر اساتذہ کو بے پناہ محنت کرنی پڑتی ہے معیاری تعلیم کیلئے گرمیوں کی طویل چھٹیاں کم کی جانی چاہئیں لیکن نجی سکولوں کے اس مطالبے پر حکومتیں کان نہیں دھرتیں انہوں نے کہا کہ آج بدقسمتی سے ہمارے ملک میں شرح خواندگی انتہائی نیچے ہے ہم دنیا کے ملکوں میں197 نمبر پر کھڑے ہیں جہاں شرح خواندگی کم ہے نجی سکول پاکستان کو خواندگی میں اوپر لانے کا عزم رکھتے ہیں جس کیلئے حکومتی تعاون اور سرپرستی بھی ضروری ہے جب کہ اس وقت ہمارا ٹارگٹ ہے کہ2025 ء تک ملک میں شرح خواندگی 100 فیصد کرنی ہے جس رفتار سے نجی سکول بند ہوئے ہیں خدشہ ہے کہ اس سے شرح خواندگی کا100 فیصد ہدف حاصل کرنے میں مشکلات حائل ہوں گی وقت کا تقاضہ ہے کہ ملک میں فوری تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی جائے تاکہ فروغ تعلیم کی راہ ہموار ہوسکے اس میں نجی شعبے کا رول کلیدی ہوگااس وقت نجی سکولوں پر 20 قسم کے ٹیکس لگائے گئے ہیں ان میں نرمی کی ضرورت ہے تاکہ نجی شعبہ بھی تعلیمی میدان میں زندہ رہ سکے ۔

ای پیپر دی نیشن