رہبرِ ترقی و کمال اور عزمِ عالیشان

قومی ترانہ ، قومی پرچم اور قومی نشان
رہبرِ ترقی و کمال اور عزمِ عالیشان
قومی اقدار، نظریات،تہذیب و تمدن اور ثقافت زندہ قوموں کی پہچان ہوتی ہیں اور قومیں اس کا اظہار اپنے ترانوں، جھنڈوں اور قومی نشانوں کے ذریعے نہایت جوش اور ولولے سے کرتی ہیں۔پاکستان کا قومی ترانہ، پرچم اور نشان متفقہ اور مشترکہ طور پر تصورِ پاکستان ، نظریہ پاکستان، تحریکِ پاکستان، تعمیرِ پاکستان ، غرض کہ تقدیرِ پاکستان کا مکمل احاطہ کیے ہوئے ہیں۔اِس قوم کی تقدیر ربِ ذوالجلال و الاکرام کی محبت اور اطاعت کے ساتھ منسلک ہے۔ ترقی و کمال کی رہبری کا جو راز ملی تشخص میں پنہاں ہے اسے جاننے کے لیے ہرفردِملت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مقصدِ حیات کو سمجھے، وجہء تخلیقِ کائنات ؐکو جانے اور اپنی ابتدا اور انتہا کا ادراک رکھتے ہوئے منزلِ مراد کو حاصل کرنے کی جستجو کرے۔آبروئے ملت اور روح فورم کی باہمی کوششوں سے رہبرِ ترقی و کمال کے عنوان سے طلبا و طالبات کی شخصیت سازی کے لیے ایک رہنما کتابی سلسلہ شروع کیا گیا ہے تا کہ نئی نسل اپنے آپ کو پہچان سکے اور اپنے اندر کی روشنی سے باہر کے اندھیروں کو دور کر سکے،اپنی قوتِ اخوت سے خود انحصاری کا سفر طے کرتے ہوئے دیگر اقوام کو اپنا رہنما بنانے کے بجائے خود دنیا کی امامت کے اْس خواب کی تعبیر ڈھونڈ سکے جو حکیم الامت ، علامہ اقبالؒ نے دکھایا ہے اور یہ تعبیر اپنے محور اور اپنی ترکیب سے جڑنے سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔حکیم الامتؒ فرماتے ہیں:-
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ
رہبرِ ترقی و کمال میں یہی ترکیبِ ہاشمی بڑی وضاحت سے بیان کی گئی ہے۔ اس تربیتی سلسلے کے پہلے ایڈیشن کے ذریعے قومی شناخت، قومی وقار اور ملی جذبوں کے امین ، قومی ترانے، قومی پرچم اور قومی نشان کی علمی افادیت اجاگر کر نے اور اس کے عملی تقاضوں کو پورا کرنیکی کوشش کی گئی ہے تا کہ نئی نسل مربوط اور مضبوط روحانی اور فکری سوچ کی حامل ہو کر مستقبل میں ، زندگی کے ہر شعبے میں قومی تشخص کے ذریعے بہترین رہنما ثابت ہو۔پہلا شمارہ ماضی، حال اور خصوصا مستقبل کا ترجمان ہے اور مومن کی اْس خوبی کا ضامن ہے جو حدیثِ پاک کے مطابق اْسے ہر آنے والے دن بہتر سے بہترین کے سفر پر گامزن کرتی ہے۔یہ سلسلہ اْس ترکیب قومِ رسولِ ہاشمیؐ کو امتِ دعوت تک عملاََ پہنچانے کا اہتمام ہے، جو پاکستانی قوم کے پاس ایک امانت ہے ،یہ وہ رہبرِ ترقی و کمال ہے،جس کا حصول اللہ اور اللہ کے رسولؐ کی اطاعت کے بغیر نا ممکن ہے۔آج ہمیں جس ترقی و کمال کی چکا چوند اقوامِ مغرب کے پاس نظر آتی ہے وہ عارضی ہے،جبکہ ترکیبِ ہاشمی عارضی اور دائمی دونوں جہانوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔لہذا پہلے ایڈیشن کے ذریعے قومی ترانے کے اندر پنہاں ترکیبِ ہاشمی کا احاطہ کیا گیا ہے اور اسے اپنے محور سے جوڑتے ہوئے کامیاب مستقبل کے لیے ایک بہترین لائحہء عمل کے طور پر واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔رہبرِترقی و کمال فکری اور علمی تحریک ہے جو قومی تشخص اور ملی جذبوں کی عملی سفارت کاری کے لئے شروع کی گئی ہے۔ قومی ترانہ قومی پرچم اور قومی نشان اس تحریک کے روح رواں ہیں اور تصورِپاکستان، تحریکِ پاکستان، مصورِپاکستان اور بانیء ِپاکستان اس کی اساس۔ تصورِپاکستان لااِلٰہ اِلَّاللہ محمّدرّسول اللہ یعنی توحید و رسالت کا عکاس ہے۔تحریکِ پاکستان ایسی فقیدالمثال قربانیوں کی داستان ہے جس کی تعلیمات اِمامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت اسماعیل کی زندگیوں سے مِلتی ہیں ۔ مصورِپاکستان ترجمانِ قرآن وسنّت اور اسوہء حسنہ ہیں جبکہ بانی پاکستان ایک انتھک محنت اورلازوال ہمّت کا پیکر ہیں۔پاکستان کا قومی ترانہ مکّہ سے مدینہ ہجرت سے لیکر ہندوستان سے پاکستان کی ہجرت تک، اللہ کی خوشنودی کی خاطر دی گئی مسلمانوں کی عظیم قربانیوں اور انکے نتیجے میں معرضِ وجود میں آنے والے مدینہء ِاوّل (622ئ) اور مدینہء ِثانی(1947 )کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔یہ ترانہ، یہ عظیم پرچم اور پاکستان کا قومی نشان ماضی کی عظمت بیان کرتے ہوئے مستقبِل کے لئے ہمّت اور محنت کے لئے بھی راہنمائی کرتا ہے ۔ قومی ترانہ بجا طور پر رہبرِ ترقّی و کمال کے لئے مطلوب تمام اوصاف (خوبیوں) کو بیان کرتا ہے۔ خصوصًا مواخاتِ مدینہ کی سنّتِ عظیم کی روشنی میں قوتِ اخوتِ عوام کو بروئے کار لاکر عزمِ عالی شان پیدا کر کے منزلِ مراد حاصل کرنے اور اس ارضِ پاک کو پائندہ اور تابندہ رکھنے کی حکمتِ عملی وضع کرتا ہے۔قومی ترانہ ایک آہنگ ہے جو قومی اور ملی سطح پر اہداف کی عکاسی کر تیہوئے فکر و تدبر کی تحریک پیدا کرتا ہے۔قومی ترانے کا مقصد مخصوص مواقع پر ترنم سے پڑھ کر کسی تقریب یا سرگرمی کا آغاز کرنا ہی نہیں ہوتا بلکہ افرادِ ملت کی توجہ حقیقی مقاصد پر مرکوز کرنے کے ساتھ اجداد کے جذبوں اور قربانیوں کی ترجمانی کرنا بھی ہے۔یہ صرف جذبات کے اظہار کا ایک وسیلہ ہی نہیں بلکہ خالقِ کائنات کی بارگاہ میں دعائیہ عہد نامہ بھی ہے جو اللہ سے مدد کی دعا کے ساتھ ساتھ اعمالِ صالح کی یاد دھانی کراتا ہے۔قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:اور اے قوم! اپنے رب سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو وہ تم پر خوب بارشیں برسائے گا اور تمہاری قوت بڑھائے گا۔پاکستان کا قومی ترانہ اللہ سے رجوع کرنے کا ایک وسیلہ ہے اور مل کر پڑھنے میں اْس قوت کو یکجا کرنے کا عزم ، جسے نئی نسل کے قائدین نے مستقبل میں ہر شعبے میں بروئے کار لا کر بین الاقوامی سطح پر ملتِ ابراہیمؑ کا نام روشن کرنا ہے۔یہ قومی ترانہ، نہ صرف ظاہری بلکہ باطنی طور پر بھی اثر انداز ہوتا ہے اور اس کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک سطر اہمیت کی حامل ہے۔قومی ترانہ مرتب کرنے والے نباض کو اس بات کا پورا پورا ادراک تھا کہ قومی ترانہ افرادِ ملت پر کیسے ایک جذباتی اور روحانی کیفیت طاری کر کے مثبت اور دیرپا اثرات مرتب کرے گا۔یہ ترانہ ہمارا تعلیمی، سیاسی، سماجی، معاشی، اقتصادی، تہذیبی ہر لحاظ سے ترجمان ہے اور مستقبل میں کامیابی کے لیے ہمارا رہنما ہے اور تمام افرادِ ملت کو ایمان، اتحاد اور نظم و ضبط میں ڈھالنے کا یک سانچہ بھی۔ہمارا قومی پرچم اور قومی نشان بھی اسی طرح خصوصی اہمیت کے حامل ہیں اور قومی نظریات اور فکری تصورات کے ترجمان ہیں ۔قومی پرچم میں سبز اور سفید رنگ کے ساتھ چاند اور تارے کو خوبصورت نشست دی گء ہے۔وزارتِ اطلاعات و نشریات ،حکومتِ پاکستان کے مطابق قومی پرچم میں ہلال اسلام کی علامت ہے ، جبکہ پانچ کونوں والا ستارا اسلام کے پانچ اراکین کو ظاہر کرتا ہے۔لہذا پانچ کونوں والا تارا اْس روشنی کی امید بھی دلاتا ہے جو ارکانِ اسلام یعنی کلمہ ، نماز، روزہ ، زکوۃ حج پر عمل پیراء ہوتے ہوئے پوری دنیا تک پھیلائی جا سکتی ہے۔قیامِ پاکستان کے وقت مختلف مذاہب کے لوگ یہاں آباد تھے۔قومی پرچم کاایک تہائی حصہ سبز ہے جو مسلمانوں کی اکثریت کو ظاہر کرتا ہے جبکہ چوتھائی حصہ سفید ہے جس سے مراد اقلیت ہیں اور اکثریت کا اقلیت کے لیے سفید رنگ پیامِ امن بھی ہے۔سبز اور سفید رنگ کا باہمی ملاپ حکیم الامت کے تصورِملت کو اجاگر کرتا ہے جس کے تحت افرادِ ملت نے اسوہئِ حسنہ کی عملی سفارت کاری کرتے ہوئے،امتِ دعوت کو اپنے حسنِ اخلاق اور رواداری کے ذریعے صراطِ مستقیم کی طرف راغب کرنا ہے۔مجموعی طور پر قومی پرچم یہ پیغام دیتا ہے کہ اس ملک کا گوشہ گوشہ جدیدعلوم اور اقدارِ اسوہئ￿ ِ حسنہ سے روشن ہو گا اور پسماندگی و تنزلی کے اندھیرے ختم ہوں گے۔یہی وہ حقیقی خواب ہے جس کے تحت مصور پاکستان نے اس مملکتِ خدا داد کا تصور پیش کیا اور بانی پاکستان نے اس کی بنیاد رکھی اور اسی تصور کی عکاسی ہمارا قومی نشان بھر پور اندازسے کرتا ہے۔
ضرورت اِس امر کی ہے کہ تمام اداروں کے قائدین اور اربابِ اختیار مل کر قومی ترانے، پرچم اور نشان کو بطورِرہبرِ ترقی و کمال، معاشرتی، تعلیمی اور اقتصادی اہداف کے حصول کے لیے بروئے کار لائیں۔تعلیمی ادارے طلبہ و طالبات کے دلوں میں ایسی تحریک پیدا کریں کہ ان کا عمل ہی قومی نشان (EMBLEM) بن جائیاور وہ بذریعہ قوتِ ایمان چاند اور ستاروں کی طرح روشن ہو کر باہمی اتحاد اور درست نظم و ضبط کے ساتھ کہکشاں کی مانند چمکیں۔اللہ کرے کہ والدین اور تعلیمی ادارے نسلِ نو کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کے لیے بھی فکر مند ہو جائیں ۔ایسی تعلیم و تربیت جو انھیں قرآن و سنت کی روشنی میں دونوں جہانوں میں سر خرو کر سکے۔حکیم الامت، علامہ اقبال ارمغانِ حجاز میں نئی نسل کے بہترین مستقبل کے لیے آفاقی لائحہ عمل مرتب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
بہ پورِ خویش دین و دانش آموز
کہ تاب چون مَہ و انجم نگینش
بہ دستِ او اگر دادی ہنر را
ید ِ بیضا ست اندر آستینش
(منظوم ترجمہ)
کرو اولاد کو دین و بصیرت سے بہرہ ور
کہ وہ چمکیں مثلِ ماہ و انجم شام و سحر
گویا اْن کی آستینوں میں یدِ بیضا ہے مضمم
گر تم نے دیا اْن کے ہاتھوں میں کسب و ہنر!

ای پیپر دی نیشن