بھارت،پاکستان اور چین کے مابین جوہری مقابلے کے سبب پیدا ہونے والے موجودہ تناو اوربداعتمادی کے ماحول کی سنگینی کو کم سے کم کیسے کیا جائے؟ ایسے نازک وقت میں بھارت نے ’’پلوامہ واقعہ‘‘کی آڑ میں ’’این ایف یو‘‘کے دوطرفہ عہد کو واپس لینے کا اعلان کیا اور خطہ کو’’ایٹمی خطرات‘‘کے مزید قریب ترکرنے جیسا احمقانہ قدم اْٹھانے کی جسارت کرڈالی جس کے بعد دنیا کے پرامن،مہذب ’متمدن اور ترقی یافتہ اقوام اپنی جگہ پراور پاکستان کے ساتھ مسلم ممالک سمیت چین کے ا من پسند‘روشن خیال دانشوروں’سیاسی وثقافتی سفارتی مدبروں کے مابین اس موضوع پر گفتگووں کے تبادلے تاحال جاری ہیں امریکہ کی میسا چیوسیٹس انسٹٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے منسلک پروفیسر اور جوہری ہتھیاروں اور ان کی روک تھام پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹر وپن نارنگ نے اپنے ٹوئٹرز پربھارتی وزیردفاع راج ناتھ سنگھ کے اس متنازعہ بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’یہ دوسرا موقع ہے جب انڈین وزیر دفاع نے’’این ایف یو کی پالیسی‘‘ پر عمل پیرا ہونے پرنیا سوال اٹھادیا ہے‘‘بقول مسٹرراج ناتھ’’اب بھارت کے نیوکلیئر اقدام کا فیصلہ حالات پر منحصر ہے‘‘اس کا اور کیامطلب لیا جائے کہ’’جب چاہے نئی دہلی حالات کو ابنارمل سمجھ لے؟ نئی دہلی کے مطابق دنیا یہ تصور کربیٹھے کہ نئی دہلی کو کھلی چھوٹ ہے؟ یوں وہ کوئی بھی انتہائی ایٹمی قدم اْٹھانے میں حق بجانب ہوگی؟اسی سلگتے ہوئے سوال کا جواب تلاشنے میں مصروف وپن نارنگ اوراْن کے ساتھی محقق کرسٹوفرکلیری لکھتے ہیں کہ’’بھارت کے اندیشوں اورخدشات کے پیچھے چھپے خوف میںاضافہ کی اصل وجہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی جوہری صلاحیتیں اور ایٹمی میزائلز کے میدان میں استعمال کی جانے والی نت نئی جدید ترین ٹیکنالوجی نے نئی دہلی کوشائد مجبور کیا ہوگا کہ نئی دہلی ایٹمی کاؤنٹر فورس کی حکمت عملی کی آڑ میں بطور فی الوقت جوہری ہتھیار’’ پہلے استعمال نہ کرنے کی پالیسی‘‘ پرعمل پیرا ہونے میں حق رکھتا ہے اور اْسے روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں، لیکن’’مستقبل‘‘ میں حالات کو دیکھتے پاکستان کو کیسے روکا جاسکتا ہے کہ وہ ہاتھوں پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے پاکستان کو برابر علم ہے کہ بھارت کا یہی وہ’’انسدادی ایٹمی قوت کا جھانسہ‘‘ہے پاکستان اور چین دونوں پڑوسی دوست ممالک نے جسے خاصی تشویش ناک سنجیدگی سے محسوس کیا ہے بھارت جیسی جنونی انتہا پسند ایٹمی ریاست کو جنوبی ایشیا کا امن تہہ وبالا کرنے کے لئے کھلی چھوٹ دی جاسکتی ہے نہ ہی جنوبی ایشیا کے ایٹمی میدان میں اب نئی دہلی کی مرضی کو چلنے دیا جائے گا، بھارت کے جنونی انتہاپسند آرایس ایس کے کارسیوکوں کے جتھہ نے گزشتہ چھ برسوں سے نئی دہلی کے اقتدار کے منبع پر اپنا قبضہ جمایا ہوا ہے’’ مودی اورامت شا‘‘ جیسوں کی قیادت میں اْن کی جارحانہ عزائم اور مکروہ فکروں کا محور دیش کے ایٹمی ہتھیاروں کی ممکنہ’’ ٹیمپٹیشنز‘‘یعنی ’’کاونٹر فورس کی فتنہ گری‘‘کی گتھیوں کو سلجھانے میں ہی سارا وقت صرف ہوتا ہے نئی دہلی کی گری ہوئی سوچ کاذرا اندازہ لگائیے ’’نئی دہلی کی ایٹمی کاونٹر فورس کی حکمت عملی میں تبدیلی کا اشارہ؟‘‘بھارت کسی اورکو دھوکہ دے سکتا ہے پاکستان کو دھوکہ نہیں دے سکتا، چونکہ دنیا پر’’پلوامہ ڈرامہ‘‘ کے بعد پاکستان کے ساتھ ہونے وا لی فضائی چھڑپ میں پاکستان کی فضائی جنگی پھرتیوں کی تاریخی کامیابی کی مہارانہ صلاحیتوں نے ثابت کردیا کہ نئی دہلی کے کرتا دھرتاوں نے ’’ایٹمی کاونٹر فورس کی حکمت عملی‘‘ جیسی جنگی اصطلاحوں کا صرف نام سنا ہے، بھارت میں ایسی صلاحیت پائی نہیں جاتی جواسلام آباد کی ایٹمی حکمت عملی اور اْس کامقابلہ کبھی کرپائے گی’’این ایف یو‘‘ کے دوطرفہ معاہدے میں تبدیلی کی باتیں نام کمانے کی گیدڑ بھبکیوںکی حد تک تو ٹھیک ہے عملاًاْن کے پاس کچھ کرگزرنے کی ہمت وصلاحیت بالکل نہیں‘ بھارتی آرمی چیف نے اس بارے میں کبھی کوئی بیان دیا ہو یا بھارت کے کسی بھی بی جے پی کے لیڈر نے کوئی بڑک ماری ہو یہ صرف عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے نعرے تو ہوسکتے ہیں حقیقت سے ان کا کوئی واسطہ نہیں‘ جہاں تک بھارتی عزائم سے پتہ چلتا ہے وہ ریاست آزاد جموں وکشمیر کی کنٹرول لائن پر یا بقول اْن کے وہ اپنی تسلی کے لئے مہم جوئی کاشوق رکھتے ہیں کچھ نہیں کرسکتے، پاکستانی قوم بہرحال پْرعزم ہے بخوبی واقف ہے کہ نئی دہلی کی طرف سے آزاد کشمیر پر قبضہ کرنا آسان اتنا ہوتا تو بھارت 72سالوں سے کشمیری حریت پسندوں کے ہاتھوں لگنے والے اپنے زخم نہ چاٹ رہا ہوتا، صرف مقبوضہ وادی میں نہیں بلکہ دیش کی ریاستوں میں مقبوضہ کشمیر کی طرز پر نئی دہلی سے آزادی کی تحریکیں جاری ہیں یہ بات عین یوں سمجھیں جیسے کہ بین الاقوامی برادری امریکہ میں خانہ جنگی اور نسلی امتیاز کی تاریخ سے واقفیت رکھتی ہے،جنوبی افریقہ میں کالے اور گورے کس طرح ایک دوسرے کی جان کے دشمن رہے یہ بھی سب جانتے ہیں جرمنی میں نازیوں نے جو ظلم ڈھائے ان پر خود جرمن قوم شرمندگی کا اظہار کرتی رہی ہے امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جو طویل جنگ لڑی اس میں ایسے مسلمان گروپوں کو نشانہ بنایا گیا جو امریکی مفادات کی راہ میں حائل تھے یہ سامراجی عزائم کا آزمودہ بھیانک ٹریک ریکارڈ ہے جس اب گزشتہ اکہتر برسوں سے بھارت شامل ہوا اور اب وہ اس سلسلے میں پہلے نمبر پر آگیا ہے اس کیباوجود بھارتی جانب سے مقبوضہ وادی میں اپنے مکروہ انسانیت سوز لائق مذمت شرمناک اقدامات اْٹھانے کے بعد ’’این ایف یو‘‘ میں تبدیلی کا ’’جھانسہ پاکستان نے بالکل مسترد کردیا جس سے یقینا مودی کے کیمپ میں سراسیمگی پھیل گئی ہوگی جناب والہ، یہ پاکستان ہے علاقائی بدمعاشوں کے لئے ترنوالہ نہیں ہے اور دنیا کے سامنے آر ایس ایس سرکار ایک نئے خطرے کے طور پر آ رہی ہے، صرف بھارت میں آباد 20کروڑ مسلمان بستے ہیں بھارت میں صدیوں سے آباد مسلمانوں کو دیوار سے لگانے میں آرایس ایس کو ہمیشہ ناکامی کامنہ دیکھنا پڑے گا بنگلہ دیش بھی ایک مسلمان ملک ہے پاکستان،مالدیپ، نیپال اور سری لنکا تک پھیلے مسلمانوں کے خلاف پرتشدد سوچ کا انجام سوائے ناکامی کے اور کچھ نہیں ہے لہذا اس فتنے کے خلاف’’این ایف یو‘‘ کے دوطرفہ معاہدے کی خلاف ورزی کی شیطانی سوچ کے اظہار کے بعد اگر اب بھی اقوام متحدہ طاقتور ممالک اور خاص طور پر عالمی ایٹمی ایجنسی کے ادارے یونہی خاموش رہے تونئی دہلی کے اقتدار پر قابض آرایس ایس کی جنونی تنظیم اس خطے کا امن کسی روز ایٹمی جنگ کی صورت میں تباہ و برباد کر سکتی ہے جہاں ہم اقوام متحدہ اور دنیا کی عالمی ویٹو پاور کی توجہ جنوبی ایشیا میں بھارتی جوہری فتنہ گری کی پیش بندیوں سے آگاہ کرکے اپنا اخلاقی عالمی ذمہ داری کافرض ادا کررہے ہیں وہاں بھارتی جنگی جنونی تشہیری مہمات سے پاکستان غافل نہیں رہنا چاہتا بھارت یقینااپنے آزمودہ دشمنی پر مبنی شیطانی حربے استعمال کرنے جیسی کوئی بھی انتہائی قدم اٹھا سکتا ہے، لہذا قارئین سمجھتے ہیں اس وقت ’’اسکیلیشن‘‘کی ایک واضح گھمبیر صورتحال موجود ہے، نئی دہلی کی طرف سے یہ خطرہ کم نہیں ہورہا دنیا کو دیر کیئے بنا اب آگے بڑھنا ہوگا بھارت کو مجبور کرنا پڑے گا پہلے قدم کے طور پر مقبوضہ وادی میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں کشمیری عوام کو اْن حق استصواب رائے دے اپنی فوجیں کشمیر سے واپس بلائے پڑوسی ایٹمی ریاست پاکستان کے ساتھ ’’نارمل ریلیشن شپ‘‘کی طرف اپنے قدم بڑھائے۔