اسلام آباد(قاضی بلال+چوہدری شاہد اجمل)قومی اسمبلی اجلاس میں ایک بار پھر ہنگائی آرائی اس بار بھی پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی والے آمنے سامنے آ گئے ۔ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر مکمل طور پربے بس نظر آئے صرف مائیک بند کرکے اور اجلاس ملتوی کرنے پر اکتفاکیاگیا ۔ ٹن پرسنٹ کے الفاظ نے پیپلز پارٹی کو آگ بگولہ کر دیا ۔ عمرایوب خان کی اشاروں میں گفتگو کے دوران پی پی ارکان کا احتجاج کیا۔ پی پی ارکان نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں علی محمد خان معاملہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے رہے۔پی پی اراکین نے ڈکٹیٹر ایوب کے نعرے بازی کی ۔مشیر خزانہ نے اپنی تقریر میں اس بات پر دکھ کا اظہار کیا کہ ستر سال سے کسی وزیراعظم کو مدت پوری نہیںکرنے دی گئی ۔مشیر خزانہ نے گورنر سٹیٹ بینک کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ اس پر فخر کرنا چاہئے جس نے ترقی کی ہے اس پر وہ لوگ بھی تنقید کر رہے ہیں جنہیں آئی ایم ایف کے دروازے کے اندر بھی کوئی گھسنے نہیں دیتا ہے۔ سابق وزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے مشیر خزانہ کی پالیسی بیان کو مسترد کر دیا اور شرط رکھ دی گئی کہ مشیر خزانہ اور گورنر سٹیٹ بینک یہ لکھ کردیں کہ وہ دس سال تک ملک نہیںچھوڑیں گے کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ 342اراکین پارلیمنٹ کی حب الوطنی پر شک کرے۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت اور پیپلز پارٹی کے درمیان تلخی نے ملک میں مہنگائی پر بحث کے ماحول کو ہنگامہ آرائی میں تبدیل کر دیا ،ایوان میں ارکان کے جارحانہ رویے کودیکھتے ہوئے ڈپٹی سپیکر کو اجلاس ملتوی کر نا پڑا،مسٹر ٹین پرسنٹ کے الفاظ پر پیپلزپارٹی کے ارکان نہ صرف طیش میں آگئے بلکہ ایوب ڈکٹیٹر مردہ باد کے نعرے بھی لگادیئے،سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے وزراء کوکتاب ’’اینمل فارم‘‘ کا مطالعہ کر نے کا مشورہ دے ڈلابدھ کو اجلاس میں وفاقی وزیر برائے توانائی عمر ایوب کی تقریر کے دوران اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی اور حکومتی ارکان آمنے سامنے آگئے۔پیپلز پارٹی کے ارکان نے عمر ایوب کا گھیرائو کر لیا،اجلاس میں عمر ایوب نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ ایک صدر ہوتے تھے جو مسٹرٹین پرسنٹ مشہور تھے جس پر پیپلز پارٹی کے ارکان طیش میں آگئے۔عمر ایوب کو روکنے کے لیے پیپلزپارٹی کے ارکان ان کی نشست پرآگئے، پہلے پی پی رہنما نویدقمر اپنی نشست سے اٹھ کر آئے جس پر آغا رفیع اللہ عمر ایوب کو زبردستی بٹھانے آگئے جب کہ وفاقی وزرا بھی عمر ایوب کی مدد کے لیے آگئے۔بعدازاں وزرا آغا رفیع کو روکنے کیلیے آگے بڑھے تو وہ گتھم گتھا ہوگئے، اس دوران اپوزیشن جماعت کے ارکان نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اچھال دیں۔عمر ایوب نے کہا کہ میں نے تو کسی کا نام نہیں لیا جس پر پیپلز پارٹی اراکین نے ایوب ڈکٹیٹر مردہ باد کے نعرے بھی لگانے لگے۔ڈپی سہیکر نے حالات کو کنٹرول کرنے کی کو شش کی لیکن کامیابی نہ ملی ،ہنگامہ آرائی کے باعث ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نیاجلاس جمعرات کی صبح 11بجے تک ملتوی کردیا،پیپلز پارٹی کے ارکان نے جب عمر ایون کی تقریر کے دوران جب ایوب ڈکٹیٹر مردہ باد کے نعرے لگائے تو عمر ایوب نے بھی ایوب خان اور ذالفقار علی بھٹو کے درمیان قربت کا تذکرہ کیا ۔اس سے قبل شاہد خاقان عباسی کی طرف سے انتہائی مدلل اندازمیں ملک میں مہنگائی اور معاشی صورتحال پر تقریر کی گئی ،شاہد خاقان نے کہا کہ وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی ایک بھی بات حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ کسی غلط فہمی میں نہ رہیں، جب لوگ سڑکوں پر نکل آئے تو چھپنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہو گی۔شاہد خاقان عباسی نے وزرا پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ اتنے ایکسپرٹ ہیں اس حکومت میں کہ ہر وزیر دوسرے کے کام کا ایکسپرٹ ہے، وزیر انسانی حقوق وزارت خارجہ چلانا چاہتی ہیں، وزیر خارجہ اکنامک ڈپلومسی پر بات کرتے ہیں، ایک قطار ہے پڑھے لکھے ایکسپرٹ کی لیکن اتنے ٹیلنٹڈ لوگوں سے ملک نہیں چل رہا۔انہوں نے مزید کہا کہ ملکی معیشت تباہ ہوچکی ہے ہوش کے ناخن لیں ،حقائق تلخ ہیں ، لوگوں کی زندگی تلخ ہوچکی ہے ،وزرا اینمل فارم ایک چھوٹی سی کتاب ہے وہ ضرور پڑھ لیں ، یہ ملک ویسا ہی چل رہا ہے۔وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب نے مہنگائی اور ملک کی خراب معاشی صورتحال کا الزام مسلم لیگ(ن) کو قرار دیا انہوں نے کہا کہ زیادہ نوٹ چھاپنے کا خمیازہ عمران خان حکومت نے بھگتا، اپوزیشن کے ارکان اپنا ماضی بھول گئے ہیں، ن لیگ نے 5سال میں 101فیصد زیادہ نوٹ چھاپے، مسلم لیگ (ن)30ہزار ارب قرض چھوڑ کرگئی، پیپلزپارٹی حکومت نے قرض 15ہزار ارب تک پہنچا دیا، 30ہزار قرض لینے کا خمیازہ سب بھگت رہے ہیں۔وفاقی وزیر نے مزید کہا پیپلزپارٹی نے وہ معاہدے کیے جو آج گلے پڑے ہوئے ہیں، رینٹل پاور پلانٹ کا بھی خمیازہ پاکستان نے بھگتا، سابق حکومت نے بجلی چوری پر قابو نہیں پایا، کرپشن کی وجہ سے یہ لو گ پھنس گئے، اس وجہ سے چیخ رہے ہیں، ماضی میں کاشتکاروں کو چکما دیا گیا، ماضی میں صنعتوں کا بیڑاغرق کر دیا گیا۔مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے جب کہا کہ کچھ لوگوں کے کمنٹس پر دکھ ہوا کہ مذاکرات کے لیے دوسری سائٹ سے بھی آئی ایم ایف کے لوگ تھے، پاکستان کو رضا باقر پر فخر ہونا چاہیے، یہ لاہور کے شہری ہیں اور اپنی قابلیت کی وجہ سے اچھی جامعات میں گئے، آئی ایم ایف میں گئے وہاں یہ نہیں ہوتا کہ ایم این اے کا بندہ ہے تو نوکری مل جائے، جو لوگ آئی ایم ایف کے کوریڈور میں بھی نہیں گھس سکتے وہ آئی ایم ایف کے بڑے لوگوں پر بیٹھ کر تنقید کررہے ہیں، رضا باقر نے آئی ایم ایف سے استعفی دیدیا ہے، ان کی بہت بڑی نوکری تھی اور بہت بڑی تنخواہ تھی، انہوں نے اس کو ٹھکرا دیا وہ پاکستان کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔اس پر اپوزیشن نے شور کر نا شروع کر دیا۔