امریکہ، جرمنی نے پاکستان، بھارت، ایران سمیت متعدد حکومتوں کی جاسوسی کی: بی بی سی

Feb 13, 2020

واشنگٹن (بی بی سی) ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے امریکی اور جرمن انٹیلی جنس سروسز نے کئی دہائیوں تک دیگر حکومتوں کی خفیہ معلومات ایک انکریپشن کمپنی کے ذریعے حاصل کیں۔ سوئس کمپنی کرپٹو اے جی نے سرد جنگ سے لے کر 2000 کی دہائی تک 120 حکومتوں کو ان کوڈنگ ڈیوائسز (یعنی وہ آلات جو خفیہ پیغامات کو چھپانے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں) فراہم کی تھیں لیکن واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق ان ممالک کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کمپنی کی اصل خفیہ مالک سی آئی اے جس کا مغربی جرمنی کی خفیہ ایجنسی سے اشتراک تھا۔ اطلاعات کے مطابق ان دونوں اداروں کے جاسوسوں نے ان آلات میں ایک ایسا نظام رکھا جس کے ذریعے وہ ان حکومتوں کے خفیہ پیغامات چوری کر سکتے تھے۔ جن ممالک کے پیغامات چوری کیے گئے ان میں ایران، انڈیا اور پاکستان شامل ہیں۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے اور جرمن انٹیلی جنس بی این ڈی کے اشتراک سے معلومات چوری کرنے کے اس انتہائی حساس پروگرام کی تفصیلات امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ، جرمن براڈ کاسٹر ذی ڈی ایف، اور سوئس چینل ایس آر ایف نے شائع کی ہیں۔ ان خبر رساں اداروں کو سی آئی اے کی ایک تاریخی داخلی دستاویز ملی جس میں اس آپریشن کو گزشتہ صدی کے دوران انٹیلی جنس کی دنیا کی سب سے بڑی ’کارروائی‘ قرار دیا گیا۔ 1980 کی دہائی میں امریکی حکام نے جن غیر ملکی پیغامات کا جائزہ لیا تھا، ان میں سے تقریباً 40 فیصد کرپٹو مشینز کے ذریعے حاصل کیے گئے تھے۔ کمپنی کا لاکھوں ڈالر منافع بھی سی آئی اے اور بی این ڈی کو دیا جاتا تھا۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکہ نے 1979 میں ایران میں امریکی سفارتکاروں کے بحران کے دوران ایرانی حکام پر نظر رکھی اور فاک لینڈ جنگ کے دوران ارجنٹینا کی فوج کی معلومات برطانیہ کو دیں۔ روس اور چین نے کبھی ان مشینوں پر اعتبار نہیں کیا تھا اور اسی لیے انہیں استعمال نہیں کیا۔ جب 2018 میں ایک سرمایہ کار نے ابتدائی کریپٹو کمپنی کو خریدا تو سویڈش کمپنی کریپٹو انٹرنیشنل وجود میں آئی۔ نئی کمپنی کا کہنا ہے کہ ان کا سی آئی اے اور بی این ڈی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ ان انکشافات سے سخت پریشان ہیں۔ سوئس حکام کا کہنا ہے کہ انہیں اس کیس کے بارے میں گزشتہ سال نومبر میں پتہ چلا اور اس حوالے سے انہوں نے ایک ریٹائرڈ وفاقی جج کو تفتیش کے لیے تعینات کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سوئس حکومت کو سارا وقت اس آپریشن کا پتہ تھا۔ سوئس حکومت ان چند حکومتوں میں سے ایک ہے جس کو ایک ایسی کریپٹب مشین دی گئی جس تک سی آئی اے کی رسائی نہیں تھی۔ یہ سوئس لوگوں کی اپنے بارے میں اس رائے کو بدلنے نہیں دے رہا کہ اچھی قیمت ملے تو وہ کچھ بھی کر لیتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب ان کے بینک آمروں کے لوٹے ہوئے اربوں ڈالر رکھتے تھے بغیر یہ دیکھے کہ اس دولت کے حوالے سے بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری کی گئی ہے۔ مگر یہ سب تو ماضی کی کہانی تھی۔ اب سوئس معیشت کا ایک اور سیکٹر پریسیٹرن انجنیئرنگ بھی متنازعہ ہوگیا ہے۔ سی آئی اے نے اس کام کے لیے کریپٹو اے جی کا استعمال بھی اس لیے کیا کیونکہ سوئٹزرلینڈ کی غیر جانبداری کا دنیا بھر میں چرچہ تھا اور بہت سی حکومتیں اسی لیے ان کے پاس آتی تھیں۔ سوئٹزرلینڈ نے پیسے لیے اور خراب مشینیں بیچیں۔ اب یہ بات ساری دنیا کو معلوم ہے۔

مزیدخبریں