کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے 

Feb 13, 2021

پروفیسر فہمیدہ کوثر

ایک مفکر کا قول ہے کہ جہاں بربیت جگہ بنالیتی ہے وہاں لوگ تلواروں کے سائے میں بھی اس ظلم کے خلاف ڈٹ جاتے ہیں کشمیری مسلمانوں کی مثا ل ہمارے سامنے ہے سالہا سال گزر جانے کے باوجود بھی کشمیری مسلمان آج بھی کسی محمد بن قاسم کے منتظر ہیں جو ان کو بربریت سے نجات دلائے محمد  بن قاسم نے راجہ داہر سے مقابلہ کیا اور تاریخ کے صفحوں پر یہ بات رقم کرگیا کہ ظلم کو مٹھی بھر طاقت سے مٹایا جاسکتا ہے  دیبل کا شہر فتح نہیں ہوپارہا تھا  محمد بن قاسم نے فوج سے کہا کہ مندر کے کلس پر جو جھنڈا لہرا رہا ہے اسے گرادو جھنڈا گرتے ہی ہندوؤں کے حوصلے پست ہوگئے اور انہوں نے شکست قبول  کرلی جس معاشرے میں ضعیف الاعتقادی اتنی زیادہ ہو وہاں اخلاقی روایات نیست ونابود ہو جاتی ہیں اور ظلم پنجے گاڑ لیتا ہے اور دنیا کی نظر مین دھول جھونکنا فریب مکاری اس معاشرے کا حصہ بن جاتی ہے۔ محمود غزنوی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک حملے کے دوران اس نے دیکھا ہے ایک مند ر میں شیوجی کا بت بغیر  سہارے کے کھڑا ہے۔ محمود غزنوی کی سپاہ حیران رہ گئی جب کہ ہندوؤں کا عقیدہ تھا کہ جب تک یہ بت فجا میں کھڑا ہے ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ محمود غزنوی نے ایک سپاہی کو حکم دیا کہ تلوار بت کے چاروں طرف گھمائی جائے۔ اس دوران یہ انکشاف ہوا کہ چھت میں کافی زیادہ مقناطیس  چھپایا گیا تھا جسکی وجہ سے بت بغیر سہارے کے کھڑا تھا بت کا گرنا تھا کہ ہندوؤں کے حوصلے پست ہوگئے۔ وہ وقت دور نہیں جب کشمیری مسلمانوں کا حوصلہ اور بھارت کی اندرونی کمزوریاں دفاعی اخراجات میں اضافہ اقلیتوں سے سلوک خالصہ تحریک کے عوامل ہی بھارت کے لئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگی۔ باغبانپورہ کالج  میں یکجہتی کشمیر کے سلسلے میں ہونے والی واک کا مقصد بھی کشمیریوں کے موقف کی تائید کرنا تھا اور اس بات کا اعادہ کرنا تھا کہ ہم سب کشمیری مسلمانوں کے حق خود ارادی میں ان کے ساتھ ہیں اور بہت جلد وہ اپنی منزل پا لیں گے۔
 میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے 
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
یوں ڈراتے ہوں زنداں کی دیوار سے 
ظلم کی بات کو جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا
ہیگل کا ایک تاریخی نظریہ ہے کہ جن ریاستوں معاشروں اور اقلیتوں نے جتنی سختیاں برداشت کیں ابھر کر مضبوط حیثیت سے سامنے آئیں کیونکہ انسانی سرشت کو دبایا نہیں جاسکتا اور امن اور شانتی کیلئے سب سے ضروری محرک حقوق کی فراہمی ہے  اور تاریخ گواہ ہے کہ طاقت کا بدمست ہاتھی اپنی ہی فوج کو روندتا چلا جاتا ہے۔  مسلسل جدوجہد ہی کشمیری مسلمانوں کو وہ راستہ دکھائے گی جس پر چل کر وہ سکون اور اطمینان کا سانس لے سکیں۔ 
 جب ظلم وستم کے کوہ گراں روئی کی طرح اڑ جائینگے
ہم محکوموں کے پاؤ ں تلے 
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
 ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے  

مزیدخبریں