قومی خزانے کی بلی 

قومی خزانہ میں اضافہ کا تصور نیا نہیں۔ہر حکمران کی خواہش رہی ہے کہ اس کے دور میں قومی خزانہ یا بیت المال بھرا رہے اور اس پر باز پرس بھی ہو یا دوسرے الفاظ میں قوم کا خزانہ ایسی سلیمانی چادر سے ڈھانپ دیا جائے جو کسی کو نظر نہ آ سکے۔ایسے ہی بھیک منگے عوام کی نظر لگ گئی اور کھل کھیلنے کا موقع ضائع ہو گیا تو ؟ اور پھر یہ عوام جو ذرا سی مہنگائی پر طوفان اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بے صبری قوم !!! حکمرانوں کی باری میں وقفہ ممکن نہیں۔خزانے پہ سانپ بھی مقرر ہیں اور بلی بھی دودھ کی رکھوالی پہ بیٹھی ہے۔بیسیوں کمیٹیاں سوچ بچار میں دن رات غرق ہیں لیکن عوام کے مسائل کا انبار تو گویا محمد حسین آزاد کے الفاظ میں گناہوں کی گٹھڑی کی طرح بڑھتا چلا جا رہا ہے۔حکومت کی خواہش ہے قوم ایثار کی طرح ڈالے اور اپنی ایک ایک روٹی کم کر کے قومی خزانہ میں جمع کروایا کرے۔اب صورت حال کچھ یوںہے کہ ضدی عوام کی بھوک پسلیوں میں اور خواص کی بھوک آنکھوں میں اتر آئی ہے چنانچہ فیصلہ صادر کیا گیا ہے کہ عوام کے اعضا پر بھی ٹیکس واجب کیا جائے اور سرکاری مشینری پسلیاں گنتے گنتے گردے اور پھیپھڑے بھی پسلیوں میں شمار کرنے لگے ہیں تاکہ زیادہ ٹیکس وصالا جا سکے۔خزانہ وہ زنبیل ہے جو بھرتا ہی نہیں۔ہر بادشاہ نے تو یہ مثال نہیں سنی ہو گی جو دانا وزیر نے ٹیکس کی وضاحت کے لیے بادشاہ کی تشویش پر اسے سمجھائی تھی۔وزیر نے برف کا ٹکڑا سب سے آخر میں بیٹھے عہدہ دار کے ہاتھ میں دیا اور باری باری سب کے ہاتھوں سے ہوتا ہوا برف کا ٹکڑا بادشاہ تک ایک قطرہ پانی کی صورت میں ہی پہنچ سکا۔سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ جب سے جلتا شہر بچانے کے لیے آنکھ کے آنسو کی تمثیل استعمال کی گئی ہے۔ارباب اختیار نے آنسوؤں کو بھی فائر بریگیڈ کا ذیلی محکمہ گردانتے ہوئے ان پر ٹیکس کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ عرصہ دراز سے بندر بانٹ کی کہانی اور بلیوں کی محرومی کی کہانی بھی ہے اور حقیقت بھی۔کہانی ہمیشہ دو طرح کی ہوتی ہے۔ایک خواص کی کہانی جسے حقیقت نہیں ثابت کیا جا سکتا اور ایک عام کہانی جو صدیوں سے کردار تبدیل کرتی ہے لیکن اس کہانی کا سفر جاری ہے۔ بلی کے سات گھر بدلنے کی روایت جیسی کہانی۔بلی بھلے شیر کی خالہ کہلائے لیکن بندر بانٹ میں مات کھا جاتی ہے۔
بالکل اسی طرح جیسے سرکاری ملازمت کے لیے کبھی عمر کی حد طے کی جاتی ہے ،کبھی تعلیم کی قید اور کہیں سفارش کے پہیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔لیکن سرکار چلانے کے لیے کوئی شرط نہیں۔حد تو یہ ہے کہ پانچ سال کے لیے آنے والے زندگی بھرکے لیے سہولیات کا بل پاس کروا کے جاتے ہیں اور عمر بھرکے لیے سر جھکا کر سرکار کی بیگار بھگتنے والوں کے لیے لاٹری کے ٹکٹ جیتنے والے ہنوز طے کر رہے ہیں کہ ان کی خدمات کا صلہ دیا جائے یا روک لیا جائے یعنی مار دیا جائے یا چھوڑ دیا جائے اور یہ پوچھنا بھی گوارا نہیں کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔مختصر مدت کے لیے منتخب ارکان کو یہ اجازت کون دیتا ہے کہ وہ بنیاد ہلا کر چلے جائیں۔
تنخواہ دار طبقہ میں بے محکمہ جات شامل ہیں۔ وہ بھی جو نوٹ خود ہی چھاپ لیتے ہیں اور وہ بھی جو محنت مشقت اور زندگی داؤ پر لگا کر بھی حلال کمائی کی تصدیق کے منتظر ہیں۔وہ بھی جو اپنی سو صد انکریمنٹ پر خود ہی مہر لگا لیتے ہیں اور وہ بھی جو بلیوں کی طرح اپنی روٹی بھی گنوا رہے ہیں۔بندر بانٹ کی کہانی سچ ہے ،سو فی صد اور کڑوا سچ۔ قومی خزانے کی تقسیم کے معاملات کو ہمیشہ عوام کی نظروں سے اوجھل رکھا گیا ہے. تنخواہ دار طبقہ اس مرتبہ بھی حکومت کی جانب دیکھ رہا ہے لیکن واپسی پر جواب نفی میں ہی ہو گا. استاد سیاست کی نذر ہو رہے ہیں۔بھلے سے وہ نسل کی تربیت کریں لیکن سیاست میں بندر بانٹ ہی چلتی ہے اور چلتی رہے گی۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن