سچا اور کھرا پاکستانی۔جسٹس (ر) میاں آفتاب فرخ 

Feb 13, 2021

شاہد رشید

موت ایک اٹل حقیقت ہے اور ہر ذی روح نے موت کا مزہ چکھنا ہے۔ دنیا میں بعض شخصیات ایسی متحرک اور پرجوش زندگی گزار جاتی ہیں کہ ان کی وفات سے پیدا ہونیوالا خلاء بڑی مشکل سے پُر ہوتا ہے۔ ایسی ہی ایک شخصیت جسٹس(ر) میاں آفتاب فرخ کی ہے۔ تحریک پاکستان کے گولڈ میڈلسٹ کارکن ، نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے بورڈ آف گورنرز کے رکن اور معروف ماہر قانون جسٹس(ر) میاں آفتاب فرخ 14فروری 2019ء کو انتقال کر گئے تھے ۔ انکی دوسری برسی پر ان کی کمی بڑی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ مرحوم کے ساتھ گزرے خوش گوارر لمحات کی یادیں ذہن سے محو ہی نہیں ہو رہی ہیں۔ مرحوم سچے اور کھرے پاکستانی تھے، انہوں نے اپنی زندگی نظریۂ پاکستان کی ترویج واشاعت کیلئے وقف کر رکھی تھی ۔ جسٹس(ر) میاں آفتاب فرخ تحریکِ پاکستان کے اُن کارکنوں میں شامل تھے جنہوں نے زمانہ طالبعلمی ہی میں تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا اور اپنا ایک مقام پیدا کیا۔آپ کے والدین بھی تحریک پاکستان کے سرگرم کارکنان تھے اورانکی خدمات کے اعتراف میں انہیں تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کی طرف سے گولڈ میڈل عطا کیا گیا ۔ آپکے خاندان نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں جو کردار ادا کیا اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
جسٹس (ر)میاں آفتاب فرخ 7 اگست 1931ء کو چوک نواب صاحب محلہ پیر گیلانیاں اندرون شہر لاہو رمیں پیدا ہوئے۔ آپکے والدمیاں فرخ حسین بار ایٹ لاء تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن تھے۔ میاں آفتاب فرخ کی والدہ بیگم فرخ حسین نے تحریک پاکستان کے دوران خواتین میں آزادی کا شعور اُجاگر کرنے کیلئے بڑے خلوص اور تندہی سے کام کیا۔ میاں آفتاب فرخ نے کم سنی سے ہی تحریک پاکستان میںحصہ لینا شروع کیا۔ آپ کا گھر مسلم لیگی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ 23 مارچ 1940ء کے تاریخی اجلا س میں آپ نے اندرون شہر کے اپنے ہم عمر لڑکوں کے ایک جتھے کے ہمراہ شرکت کی۔ آپکے والد اس تاریخی اجلاس کی مشاورتی کمیٹی کے صدر تھے۔مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اس جلوس میں آپ بھی شامل تھے جس میں عبدالمالک شہید ہوئے‘اس جلوس میں مجید نظامی مرحوم بھی شریک تھے ۔ جسٹس(ر) میاں آفتاب فرخ اپنی والدہ کے ہمراہ خواتین کی سرگرمیوں کے متعلق پیغام رسانی کرتے تھے۔ اس ضمن میں تحریکِ پاکستان کی نامور خواتین کارکنوں فاطمہ بیگم، بیگم کریم داد، بیگم قلندر علی خان، بیگم زبیدہ شاہ، بیگم سلمیٰ تصدق حسین، بیگم ناصرہ، بیگم شاہنواز اور بیگم گیتی آرا سے آپکا رابطہ رہتا تھا۔آپ بہترین سائیکلسٹ تھے اور پیغام رسانی کیلئے زیادہ تر اپنی سائیکل کا استعمال ہی کرتے تھے۔ 1944ء میں کارپوریشن کے انتخابات میں آپ نے بھرپور کام کیا۔ ان انتخابات میں آپکے والد میاں فرخ حسین نے سید ہادی علی شاہ کے مقابلے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ قیامِ پاکستان کے وقت آپ مہاجرین کی بحالی اور زخمیوں کی امداد اور بے گھر لوگوں کی فلاح و بہبود کیلئے شبانہ روز مصروفِ عمل رہے۔تحریک پاکستان میں آپکی گرانقدر خدمات کے اعتراف میں تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ نے 1999ء میں آپکو گولڈ میڈل عطا کیا۔
جسٹس(ر) میاں آفتاب فرخ کا شمار مجید نظامی مرحوم کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھااور وہ روزانہ عدالتی اوقات کار کے بعدمجید نظامی سے ملاقات کیلئے تشریف لاتے اور مختلف موضوعات پر گھنٹوں گفتگو ہوتی تھی۔مجید نظامی مرحوم کی حق گوئی و بیباکی کے متعدد واقعات کو وہ عینی شاہد تھے اور بسا اوقات ان واقعات کا تذکرہ کرتے رہتے تھے۔ جسٹس(ر) آفتاب فرخ سراپا پاکستان تھے اور پاکستان سے گہری محبت انکے رگ وپے میں رچی بسی تھی۔انہوں نے زندگی بھر پاکستان کی تعمیروترقی اوردوقومی نظریہ کی ترویج واشاعت کیلئے دن رات کام کیا۔ جسٹس (ر) میاں آفتاب فرخ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتے تھے۔ ٹرسٹ کی سرگرمیوں کو وسعت دینے کیلئے ان کا تعاون ہمیشہ شامل حال رہااور وہ انتہائی مفید مشوروں سے بھی نوازتے تھے۔تحریک پاکستان سے انہیں انتہائی لگائو تھا اور انکی خواہش تھی کی پوری قوم بالخصوص نئی نسلوں کو تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے اسباب ومقاصد سے آگہی حاصل ہو۔ نئی نسل کی نظریاتی تعلیم وتربیت میں انکی گہری دلچسپی تھی اور ان کا یقین تھا کہ پاکستان کی نئی نسل بہت باصلاحیت ہے اورانکی موجودگی میں ملک کا مستقبل تابناک ہے۔آپ نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے ٹرسٹی بھی تھے۔ جسٹس(ر) میاں آفتاب فرخ نے عمر کے آخری حصے میں اپنی یادداشتیں قلمبند کروانے کا سلسلہ بھی شروع کیا ۔ وہ ایوان کارکنان تحریک پاکستان آتے تو گھنٹوں بیٹھ کر پرانی یادیں تازہ کرتے تھے۔ افسوس کہ ان کی زندگی نے وفا نہ کی ورنہ وہ اپنی یادداشتیں مکمل کرواتے۔ 
جسٹس(ر) میاں آفتاب فرخ ایک اصول پسند انسان تھے اور انہوں نے اصولوں پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ۔ مارچ 1981ء کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے عبوری آئین کا حکم پی سی او(PCO) جاری کیا جس کے تحت 1977ء کے بعد سے فوجی حکومت کی طرف سے کئے گئے تمام اقدامات کو قانون کے مطابق قرار دے دیا گیا۔عبوری آئین کے تحت ججوں کو لازمی قرار دیا گیا تھا کہ وہ عبوری آئین کی وفاداری کا حلف ازسرنو اٹھائیں۔ 25 مارچ 1981ء کو صدر ضیاء الحق نے پریذیڈنسی راولپنڈی میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں سپریم کورٹ کے ججوں اور وفاقی شرعی عدالت کے ارکان سے انکے عہدوں کا حلف لیا۔ اس وقت جن جرأت مند ججوں نے حلف اٹھانے سے انکار کردیا ان میں جسٹس(ر) میاں آفتاب فرخ کانام بھی شامل تھا۔ یہ وہ وقت تھا کہ اگر وہ حلف اٹھا لیتے تو ایک روشن مستقبل ان کا منتظر تھا اور شاید چیف جسٹس کے عہدے تک بھی پہنچ جاتے ، مگر انہوں نے اپنے کیرئیر کی پرواہ کیے بغیر حق کا ساتھ دیا جس کی پاداش میں انہیں مشکلات بھی برداشت کرنا پڑیں ۔ جسٹس(ر) میاں آفتاب فرخ فوجداری مقدمات کے ماہر وکیل تھے اور انہوں نے شعبہ وکالت میں اپنا نمایاں مقام بنایا ، وہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین بھی رہے۔ اپنی عمر کے آخری حصے میں انہوں نے ریٹائرمنٹ لیکر اپنے پاس موجود تمام کیسز کو نمٹانا شروع کر دیا اوربالآخر سرخرو ہوکر اللہ کے حضور حاضر ہو گئے۔ اللہ تعالی انہیں جوار رحمت میںجگہ عطا فرمائے۔آمین 

مزیدخبریں