اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اﷲ نے ہائیکورٹ حملے کے بعد پولیس کی جانب سے بے قصور وکلا کے گھروں پر چھاپوں أپر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر اور پولیس سے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔ عدالت نے کہا کہ بے گناہ وکلا کو کسی صورت ہراساں نہ کیا جائے‘ پولیس کیا کسی کی گیم کھیل رہی ہے‘ یہ کرنا کیا چاہتے ہیں؟۔ دھاوے کی مذمت کرنے والے وکلاء کے گھروں پر بھی چھاپے کیوں مارے جا رہے ہیں؟‘ اس موقع پر جواد نذیر ایڈووکیٹ نے کہا کہ پولیس نے گزشتہ رات میرے آفس پر چھاپہ مارا‘ نہ میں احتجاج میں تھا نہ اس کی حمایت کی‘ میں نے تو حملے کی کھل کر مذمت کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ علیم عباسی کا بھی مجھے پتہ چلا ہے کہ ان کے گھر پر بھی چھاپا مارا گیا ہے‘ بہت ساری چیزیں آپ کو نہیں بتا سکتا جو میری معلومات ہیں‘ جنہوں نے جرم کیا ہے صرف ان کے خلاف کارروائی درست۔ چیف جسٹس نے ڈپٹی کمشنر اور اسلام آباد پولیس پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیا مذاق ہو رہا ہے‘ کون کر رہا ہے یہ سب؟۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ مجھے صبح ہی پتہ چلا ہے‘ اسی وجہ سے ایس ایس پی کو بلایا ہے۔ چیف جسٹس نے ایس ایس پی سے استفسار کیا کہ بے گناہ پروفیشنل وکلا کو کون ہراساں کر رہا ہے؟۔ آج تک اس عدالت سے آپ کے کام میں مداخلت نہیں ہوئی‘ یہ عدالت کسی کو کوئی گیم کھیلنے کی اجازت نہیں دے گی‘ اس معاملے پر انکوائری بٹھائیں اور پتہ کریں کہ کس نے ایسا کیا اور کیوں کیا‘ ملک میں رول آف لا نہیں ہوگا تو کچھ بھی نہیں ہوگا۔ مجھے ان کے خلاف کارروائی چاہئے جنہوں نے اصل ملزموں کو گرفتار نہیں کیا۔ کل تک انکوائری کرکے عدالت کو رپورٹ کریں۔ 5 فیصد لوگ اس واقعے میں ملوث تھے جو سب کی بدنامی کا باعث بنا‘ یہ صرف اصل ملزموں کو بچانا چاہتے ہیں۔ علاوہ ازیں حملہ اور توڑ پھوڑ کرنے والے 32 وکلاء کے کیسز پر پانچ بنچ تشکیل دے دیئے۔ علاوہ ازیں انسداد دہشتگردی عدالت نے چار مزید وکلاء کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا‘ تفتیشی افسر سے ریکارڈ طلب کر لیا۔