بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا نے 2014ء کے بعد اب تک 10 ہزار 300 نابالغ بچوں کو جنگ کے لیے جبری طور پر بھرتی کیا ہے۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر اقوام متحدہ کی طرف سے یمن میں جاری سیاسی بحران کا کوئی حل نہیں نکالا جاتا تو اس صورت میں بچوں کے جنگ کا ایندھن بننے کے خطرات مزید بڑھ سکتے ہیں۔
یورو مڈل ایسٹ برائے ہیومن رائٹس اور 'فریڈم فارہیومن رائٹس' سام' کی طرف سے جنگ کے لیے بچوں کی بھرتی روکنے کے عالمی دن 12 فروری کے موقعے پر جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حوثی ملیشیا بچوں کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جنگ میں جھونک رہی ہے۔ حوثی اپنے زیر تسلط علاقوں میں جنگجوئوں کی کمی پوری کرنے کے لیے بچوں کو بھرتی کر رہی ہے۔ لڑائی کے دوران سیکڑوں بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جولائی اور اگست 2020ء کے دوران یمن میں ہونے والی لڑائی میں 111 بچے مارے گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2018ء، 2019 اور 2020ء کے دوران حوثی ملیشیا نے کم عمر بچوں کو جنگ میں بھرتی کرنے باقاعدہ مہمات چلائی گئیں۔ بھرتی کیے گئے ہزاروں بچوں کو 52 عسکری ٹریننگ مراکز میں جنگی تربیت دی گئی۔ ان مہمات میں صعد، صنعا، المحویت، الحدیدہ، تہامہ، حجہ اور الذمار گورنریوں سے اسکولوں میں پڑھنے والے ایسے بچوں کو بھی بھرتی کیا گیا جن می عمریں محض 10 سال تھیں۔
رپورٹ کے مطابق حوثی ملیشیا اپنے زیرانتظام علاقوں میں قائم پناہ گزین کیمپوں، یتیم خانوں اور عام شہری آبادی سے 10 سے 17 سال کی عمر کے بچوں کو بھرتی کرتی رہی ہے۔ حوثی ملیشیا شہریوں کی غربت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر 150 ڈالر ماہانہ اجرت پر ان کے بچوں کو جنگ کے لیے بھرتی کرتی چلی آ رہی ہے۔