سینٹ میں چیئرمین سینیٹ کیخلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے کے بعد سے حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتیں خواہش کے باوجوددوبارہ ایسے قدم سے باز ہیں حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)اور ایوان کے اندر متحدہ اپوزیشن کی سطح پر بارہا یہ بات زیر بحث آچکی ہے لیکن یہ جسارت تاحال قابل عمل نہ ہو سکی ہے .قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمد شہباز شریف اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری کی حالیہ ملاقات میں بھی حکومت مخالف تحریک کو کامیاب بنانے سمیت تمام امور پر غور وخوص کیا گیا وزیر اعظم اسپیکرقومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے بھی ملاقات میں گفتگوکی گئی تاہم نمبر گیم پورا نہ ہونے اور تحریک عدم اعتماد کی ناکامی سے خوف سے اس حوالے سے حتمی طور پر کوئی فیصلہ نہ ہوسکا تاہم اسے ایک آپشن کے طور پر زیر غورر رکھا گیا ہے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کیجانب سے حکومت مخالف تحریک کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہو کر مؤثر بنانے کیلئے بھی دونوں سیاسی جماعتوں کے مابین اتفاق کیا گیا ہے دوسری جانب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم )کی سطح پر بھی حکومت کیخلاف حتمی اقدامات کا مطالبہ زور پکڑرہا ہے پی ڈی ایم کا حصہ چھوٹی سیاسی جماعتوں کیجانب سے بڑی سیاسی جماعتوںبالخصوص ن لیگ کو وفاق اور پنجاب میں عوام کو حکومت کے خلاف متحرک کرنے کیلئے کردارادا کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے .میاں محمد شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی ملاقات کے بعد دونوں سیاسی جماعتوں کو اور دوسری جانب جے یو آئی ایم کیو ایم اے این پی کے مابین رابطوں کیساتھ حکومتی اتحادی جماعتوں کو ساتھ ملانے کیلئے بھی پی ڈی ا یم کے پلیٹ فارم پردروازے کھلے رکھے ہوئے ہیں سنٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس کے بعد مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف نے بھی گرینڈ اپوزیشن اتحاد کے قیام کیلئے کوششیں تیز کر دی ہیں حکومت مخالف تحریک کو مؤثر اور کامیاب بنانے کیلئے اپوزیشن جماعتوں نے بھر پور طریقہ سے کمر کس لی ہے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)کا حصہ چھوٹی سیاسی جماعتوں نے فیصلے کا اختیار پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمن کو سونپ دیاہے میا ں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کے مابین مسلسل رابطے اور مشاورت بھی جاری ہے زردرای اور بلاول کیساتھ ملاقات میں نواز شریف کو ٹیلی فون جبکہ ملاقات کے بعد بھی میاں شہبازشریف نے میاں نواز شریف کو ملاقات کے حوالے سے مکمل اعتماد میں لیااور تمام تفصیلات سے بھی آگاہ کیا موجودہ حکومت کی کارکردگی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث مسلم لیگ ق ،جی ڈی اے اور ایم کیو ایم بھی نالاں ہیںاور انکہی جانب سے بھی حکومت کے اتحادی ہونے کے باوجودحکومت کی کارکردگی پر کھلے عام تنقید کی جا رہی ہے حکومت کیخلاف گرینڈ اپوزیشن اتحاد کے قیام کیلئے کوششیں تیز کر دی گئی ہیں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو پی ڈی ایم میں شامل چھوٹی سیاسی جماعتوں کیجانب سے فیصلے کا مکمل اختیار دیدیا گیا ہے دوسری جانب مولانا فضل الرحمن اور میاں محمد نواز شریف کے مابین رابطوں اور مشاورتی عمل میں بھی تیزی آئی ہے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں محمد شہباز شریف کیجانب سے پاکستان پیپلزپارٹی کیساتھ حکومت مخالف تحریک کو مؤثر اور کامیاب بنانے کیلئے اہم نقاط پر اتفاق کیا گیا ہے ایوان کے اندر حکومت کو ٹف تائم دینے کیلئے اور تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے نمبر گیم پوری کرنے پر بھی تفصیلی مشاورت کی گئی ہے تاہم اس ضمن میںحتمی فیصلہ نہیں کیا گیا پی ڈی ایم اور مسلم لیگ ن کی سطح پر تمام مشاورت میں سابق وزیراعظم میاں محمدنواز شریف کو بھی مکمل طور پر شامل رکھا گیا ہے حالیہ پیشرفت کے حوالے سے اگر بات کیجائے تو میاں شہبا زشریف کو پارٹی کی سنٹر ل ایگزیکٹیو کمیٹی اجلاس میں اہم ٹاسک سونپا گیا جس پر عملدرآمد کیلئے میاں شہبا زشریف آجکل انتہائی متحریک ہیں اور ملکی سیاست میںمکمل ان ایکشن ہیں بلاول بھٹوزرداری اور آصف علی زرداری ،متحدہ قومی موومنٹ ،مسلم لیگ ق اور جے ڈی اے کیساتھ رابطے اور حکومت کیخلاف تمام سیاسی جماعتوں کو پلان آف ایکشن پر متحد کرنے کیلئے مشاورت اور ملاقاتوں کا سلسلہ بھی زور وشورسے جاری ہے دوسری جانب میاں شہبا زشریف پارٹی قائد میاں محمد نواز شریف اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ وامیر جمعیت علمائ اسلام مولانا فضل الرحمن کیساتھ بھی رابطے میں ہیں اور ملاقاتوں اور رابطوں کے حوالے سے بھی اعتماد میں لے رہے ہیں ۔ حالات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور وزیراعظم عمران خان کیخلاف طبل جنگ بجنے کو تیار ہے قیاس یہی ہے کہ حزب اختلاف سمیت حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی اس سیاسی جنگ کا حصہ ہونگی حکومت کیلئے آنے والوں دن سیاسی طور پرمشکلات کا باعث ہونگے گذشتہ تقریبا چار سالہ دور اقتدار میں وزیر اعظم عمران خان اپنی مقبولیت کو برقرار رکھنے میں کامیا ب ہوسکے نہ ہی اپنے ان نعروں اور دعوؤں کو عملی جامہ پہنا سکے جن کاچرچا وہ اپنے انتخابی جلسوں میں کرتے رہے ہیں وزارتوں کی کارکردگی پر درجہ بندی اور وفاقی وزراء کو تعریفی اسناد سے نوازے جانے پر بھی عوام میں ملا جلا رجحان دیکھنے میں آیا ہے بعض حلقوں نے اس قدم کوحکومت کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا دینے کی ایک ناکام کوشش قراردیا ۔