پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ایک بار پھر گہرے بادل منڈلا رہے ہیں ۔سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے رابطوں میں ہیں سیاسی سرکس میں خوب اچھل کود ہو رہی ہے ہر کوئی اپنی اہمیتِ بڑھانے کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے ان رابطوں میں نہ کہیں ہم آہنگی نظر آتی ہے نہ نظریات دکھائی دیتے ہیں نہ ہی مقاصد واضح ہو رہے ہیں۔ صرف خبریں بن رہی ہیں۔ ٹی وی پر لائیو آنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے ۔کئی ملاقاتوں کی تو سمجھ بھی نہیں آ رہی لیکن سیاست میں بہت کچھ دکھانے، ڈرانے اور سمجھانے کیلئے ہوتا ہے ۔اس وقت دو معاملات بہت اہم ہیں۔ ایک اپوزیشن کی جانب سے حکومت کیخلاف عدم اعتماد دوسرا پیپلزپارٹی کا 27فروری کو ٹریکٹر ٹرالی مارچ اور پی ڈی ایم کا 23 مارچ کو لانگ مارچ ۔پہلے عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی بات کر لیتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے آصف علی زرداری نے حال ہی میں دو اہم ملاقاتیں ڈالی ہیں ۔وہ رائے ونڈ میں میاں نواز شریف کے گھر گئے جہاں میاں شہباز شریف،مریم نواز،اور مسلم لیگ کے دیگر اکابرین بھی موجود تھے انہوں نے مسلم لیگ ن کو عدم اعتماد کیلئے راضی کر لیا ہے اور میاں نواز شریف نے بھی اس کی اجازتِ دے دی ہے۔ قبل ازیں میاں نواز شریف عدم اعتماد کے حق میں نہیں تھے اس ملاقات کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا تاہم بعد میں میاں شہباز شریف نے انھیں پیپلز پارٹی کے ساتھ عدم اعتماد کی حد تک ساتھ چلنے پر راضی کر لیا لیکن مولانا کی اندر سے پیپلز پارٹی سے ناراضی ابھی برقرار ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کو استعمال کر جائیگی کیونکہ آصف علی زرداری نے قبل ازیں بھی کئی بار ہاتھ دکھائے ہیں لیکن ظالم آدمی ہر بار ایسا خوبصورت جال پھینکتا ہے کہ مچھلی خوشی خوشی بھاگی چلی آتی ہے، آصف زرداری نے اپنے کھیل میں حقیقت کا رنگ بھرنے کیلئے فوری چوہدری برادران کے گھر بھی حاضری دے دی ۔لمبی گپ شپ میں یہ تاثر دیا کہ عدم اعتماد میں چوہدری ساتھ دے سکتے ہیں ۔جس پر میاں شہباز شریف نے بھی چوہدریوں سے رابطوں کی خبریں چلوانی شروع کر دیں ۔حکومت کے ایک اور اتحادی ایم کیو ایم کے رہنماؤں عامر خان اور وسیم اختر نے بھی دو دن لاہور میں میلہ لگایا ۔انہوں نے چوہدری برادران کے ساتھ ملاقات کے ساتھ ساتھ میاں شہباز شریف سے بھی ملاقات کی جس سے سیاسی حلقوں میں یہ تاثر گہرا ہوتا گیا کہ کوئی سنجیدہ گیم چل رہی ہے جو سیاستدان ملاقاتیں کر رہے ہیں اور شاید کہیں حکومت کو گھر بھیجنے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ یہ حالات دیکھ کر ہر کسی نے پر پرزے نکالنے شروع کر دیے بلوچستان کے دوستوں نے کہا ہم کیوں پیچھے رہ جائیں انہوں نے بھی اپنی اہمیت جتلانا شروع کر دی ۔اب وہ بھی مرکز میں وزارت اور مزید فنڈز کے حصول کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ آصف علی زرداری نے مسلم لیگ ن کو جب چاہا جہاں چاہا استعمال کیا اور جب چاہا جہاں چاہا اسے ذلیل بھی کروا دیا۔ پہلے لانگ مارچ کا سارا ماحول بنوا کر استعفوں کے معاملے میں ہاتھ کھینچ لیا اور بیچ چوراہے میں لا کر استعفوں کی سیاست کو دفن کر دیا ۔پھر انہوں نے چکمہ دیا اور سینٹ کے الیکشن میں اپنا مطلب نکالا۔ یوسف رضا گیلانی کو ساری اپوزیشن کے ووٹوں سے سینیٹر منتخب کروایا اور سینٹ میں حسب وعدہ مسلم لیگ ن کے امیدوار کو اپوزیشن لیڈر منتخب کروانے کے وعدے کو پس پشت ڈال کر یوسف رضا گیلانی کو منتخب کروالیا ۔اب پی ڈی ایم نے لانگ مارچ کا فیصلہ کیا تو زرداری صاحب نے اس کو ہائی جیک کرنے کیلئے نئی گیم ڈال دی۔ ایک تو انہوں نے پی ڈی ایم کو اپنے پیچھے لگانے کیلئے 27 فروری کو اپنا مارچ شروع کرنے کا اعلان کر دیا اور دوسرا پی ڈی ایم کی لانگ مارچ سے توجہ ہٹانے کیلئے عدم اعتماد کی کہانی گھڑ لی۔ اب ساری اپوزیشن عدم اعتماد کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ اب جو وہ کھیل رچانے جا رہے ہیں اس کا سارا کنٹرول زرداری صاحب کے ہاتھ میں ہے وہ جس طرف کو چاہیں گے اسے لے جائیں گے۔ مجھے ایسے لگ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی ایک بار پھر مسلم لیگ کو استعمال کر کے چھوڑ دے گی اور مسلم لیگی ہاتھ ملتے رہ جائینگے ۔ جہاں تک عدم اعتماد کی بات ہے تو پاکستان کی تاریخ میں کسی وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آج تک کامیاب نہیں ہو سکی وزرائے اعظم سے جان چھڑوانے کیلئے ہمیشہ دوسرے راستے اختیار کرنا پڑے۔ وزیراعظم کے پاس دینے کو بہت کچھ ہوتا ہے اور گیا گزرا وزیراعظم بھی اسے مینج کر لیتا ہے اس لیے عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے امکانات بہت معدود ہیں البتہ اس ساری مشق کا اصل فائدہ حکومت کے اتحادیوں کو ہو گا ۔ مجھے لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی یہ سارا کچھ اگلے انتخابات کیلئے کر رہی ہے وہ پنجاب سے اپنا حصہ وصول کرنا چاہتی ہے اور وہ حصہ مسلم لیگ ن کی دشمنی میں وصول کیا جا سکتا ہے اس کی دوستی میں نہیں ۔دوسری طرف حکومت کی پوری کوشش ہے کہ میاں شہباز شریف کو کسی نہ کسی طرح جیل بھیج دیا جائے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اپنی سیاسی بقا کی جنگ کس طرح لڑتی ہے۔ اگر مریم نواز شریف بیرون ملک چلی جاتی ہیں یا چچا بھتیجی گرفتار ہو جاتے ہیں میاں نواز شریف باہر سے نہیں آتے تو میدان میں کنٹرول کرنے والا کون ہو گا اور اگر ایساماحول بن گیا جس میں یہ تاثر ابھرنا شروع ہو گیا کہ مسلم لیگ اگلی باری بھی اقتدارِ میں نہیں آرہی تو لیگی الیکٹ ایبل کا صبر جواب دے جائیگا ۔سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی۔ آپ بس انجوائے کریں آپ نے گھبرانا نہیں۔ صرف دیکھیں اور انتظار کریں سیاست کے کھیل اسی طرح کے ہوتے ہیں۔