کیا ملک دیوالیہ ہو چکا یا ہونے کے قریب ہے یا پھر دیوالیہ ہونے سے بچ جائے گا۔ گذشتہ کئی ماہ سے یہی بحث جاری ہے۔ جو پہلے حکومت کر رہے تھے ان کے خیال میں سب کچھ موجودہ حکمرانوں نے کیا ہے جب کہ حکومت سارا ملبہ پی ٹی آئی پر ڈال رہی ہے۔ حالانکہ موجودہ حالات کا ذمہ دار کوئی ایک نہیں یہ سب ہیں۔ جو کچھ ہوا ہے یا بو کچھ ہو رہا ہے یا جو کچھ ہونے والا ہے یہ سب کچھ ان چند سو لوگوں کا کیا دھرا ہے۔ کسی کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا سب نے مل جل کر ملک لوٹا ہے اور سب نے مل جل کر جائیدادیں بنائی ہیں اور سب نے مل جل کر پیسہ باہر بھیجا ہے۔ ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے والے آج بھی ہمارے سامنے ہیں اور مزید تباہی کا بندوبست بھی کر رہے ہیں۔
ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام نے ہر باشعور کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ حالات سنبھل نہیں رہے اور جنہوں نے سنبھالنا ہے وہ خود کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہے۔ قوم سے بھی سوال ہے کہ اگر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں خرابی اور مسائل کی وجہ فوجی حکمران ہیں تو پھر یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ 1985 تک ملک کی معاشی حالت کیا تھی کیا اس سے پہلے بھی ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا تھا، کیا اس سے پہلے بھی ہم ہر وقت بیرونی امداد کے منتظر ہوتے تھے، کیا اس سے پہلے بھی ملک میں مہنگائی تھی، کیا اس سے پہلے بھی دو وقت کی روٹی مشکل تھی، کیا اس سے پہلے بھی ڈالر کی اڑان اتنی اونچی تھی، کیا اس سے پہلے بھی روپے کی قدر اتنی گری ہوئی تھی تھی، کیا اس سے پہلے بھی ملک میں امن و امان کی صورتحال یہ تھی جو آج ہے، کیا اس سے پہلے بھی ادویات کی کمی ہوا کرتی تھی، کیا آٹا کم ہوتا تھا، کیا چینی کم ہوتی تھی۔ غرض یہ کہ زندگی کی بنیادی اشیاء یا سمیت ہر وہ چیز جس کی ملک کو ضرورت ہوتی تھی وافر مقدار میں دستیاب ہوتی تھی یا نہیں۔ 1985 سے لے کر آج تک دیکھ لیں 2023 میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ آئی ایم ایف کے معاہدے کے سوا پاکستان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ کیونکہ اس وقت ہم وہاں کھڑے ہیں اور ہماری حالت یہ ہو چکی ہے کہ آئی ایم ایف کچھ بھی کہے وہ کوئی بھی تقاضا کریں کوئی مطالبہ کریں، کوئی بھی شرط لگائیں ہم ہر مطالبہ مانیں گے اور ہر شرط پوری کریں گے۔ کیونکہ پاکستان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ پاکستان کی معیشت اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ ہم ہر وقت کبھی چین کبھی سعودیہ یہ کبھی متحدہ عرب امارات کبھی امریکا کبھی آئی ایم ایف اور ان کے ساتھ ساتھ ہم ہر وقت بیرونی امداد کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ جو ہمیں قرض دینا چاہتے ہیں وہ جو مطالبہ رکھیں گے ہم ماننے کے لیے مجبور ہیں۔ دو ہزار تیئس میں دنیا ترقی کر کے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم مالی اور معاشی حوالے سے خدانخواستہ انیس سو ساٹھ سے بھی پیچھے چلے گئے ہیں۔ اس کا ذمہ دار کون ہے۔ کیا جمہوریت کا راگ الاپنے والے اس کی ذمہ داری قبول کریں گے، کیا جمہوریت کو بہترین انتقام کہنے والے والے موجودہ حالات میں اس نظام حکومت کو ناکام کہنے کی جرات کریں گے۔ کوئی کہے نہ کہے،کوئی سمجھے نہ سمجھے، کوئی سوچے نہ سوچے لیکن حقیقت یہی ہے یہ نظام ناکام ہوا ہے اسے چلانے والے ناکام ہوئے ہیں اور اس نظام کو چلانے والوں نے خاک بدہن ملک کو ناکام کرنے کی بھی پوری کوشش کی ہے۔ ستمبر دو ہزار اکیس سے لے کر آج تک چوبیس کروڑ لوگوں کے اس ملک میں جو کچھ ہوا ہے اگر اس کے بعد بھی ہماری آنکھیں نہیں کھلتی ہم شرمندہ نہیں ہوتے ہم سوچ بچار نہیں کرتے غور و فکر نہیں کرتے عقل سے کام نہیں لیتے سمجھداری سے کام نہیں لیتے ایک دوسرے پر لعن طعن کرنا بند نہیں کرتے تو پھر یہ یاد رکھیں کہ نہ صرف ہم تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں بلکہ ہم تباہی کا سامان بھی کر رہے ہیں۔ ہم خود وہ آگ لگا رہے ہیں جو ہم بجھا نہیں سکیں گے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کب تک بیرونی قرضوں پر چل سکتے ہیں، کوئی یہ بحث کیوں نہیں کرتا کہ ہم نے معاشی و مالی خود مختاری کی طرف بڑھنا ہے۔ اگر ملک دیوالیہ ہو جاتا ہے تو پھر کیا ہو گا۔
ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبر زیدی کہتے ہیں تمام سرکاری زمین بیچ دیں تو قرض چار بار ادا ہو جائیگا۔ دیوالیہ ہو چکا اب بہت زیادہ فرق نہیں پڑنا روس اور یوکرین نے ڈیفالٹ کیا جن ممالک نے ڈیفالٹ کیا ترقی کی۔، سارے معیشت دان نالائق ہیں یا منافق ہیں اس وقت نئی چیز یہ ہے کہ فارن پالیسی معاملات سے پیسے نہیں بن رہے۔ کرپشن کا پچاسی فیصدحصہ بزنس مینوں کے پاس جاتا ہے، سب کی یورپ اور امریکا میں پراپرٹیز ہیں،حوالے کے پیسے کراچی میں کہاں سے ملتے ہیں سب کومعلوم ہے۔ غیر ملکی ائیر لائنز کو بند کیا جائے، سی پیک کی لال بتی کچھ نہیں ہے، اسے بند کریں، تیل کا بیج پاکستان میں اگائیں اور بجلی میں تین ارب ڈالر بچائیں۔
پاکستان میں سب کچھ ہو سکتا ہے، پاکستانی ہر کام کر سکتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہر شخص کا اپنا مفاد ہے، ہر دوسرا شخص ملکی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دیتا ہے، بددیانتی انتہا کو پہنچ چکی ہے، بڑے لوگ قربانی نہیں دینا چاہتے، بڑے لوگ مسائل حل نہیں کرنا چاہتے، عوام کے ووٹ سے حکومت میں آنے والے ٹیکس کے پیسے پر عیش کرتے ہیں، معاشی طور پر کمزور ملک میں ہر وزیر مشیر کیسے مراعات حاصل کر سکتا ہے، کیوں انرجی بچانے کے لیے، پیسے بچانے کے لیے، ڈالر کی غیر قانونی خرید و فروخت اور سمگلنگ کیوں نہیں رک سکتی۔
کچھ سوچیں، کچھ ملک کا سوچیں، ان کروڑوں لوگوں کا سوچیں، جتنی جائیدادیں اندرون و بیرون ملک بن چکی ہیں ان سے بھی زیادہ بن جائیں گی اگر ملک کو مسائل سے نکالنے کے لیے فیصلے کرنے والے سب سے پہلے اپنی مراعات اور ذاتی مفادات کو ملکی مفاد پر قربان کریں۔ انہیں ووٹ دینے والے بھی اپنی عقل استعمال کریں اور کسی کی نفرت یا محبت کے بجائے ملک کا سوچیں۔