ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ کے لیے ایک کالم 


جھنگ قصور کے بعد فیاض احمد موہل کو ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ مقرر کر دیا گیا ہے ۔اسطرح ان کی بطور ڈپٹی کمشنر مسلسل پوسٹنگ کی ہیٹرک مکمل ہو گئی ہے ۔ ایسا اعزاز کم افسروں کے حصے میں آیا ہے ۔ سابق آرمی چیف جنرل ٹکا خان اور شیخ رشید کے درمیان راولپنڈی کے قومی اسمبلی کے حلقہ میں انتخابی مقابلہ تھا۔ عوامی مزاج کے شیخ رشید نے اپنی پوری انتخابی مہم میں ایک ہی رٹ لگائے رکھی کہ ٹکا خان اپنے گھر سے کسی انتخابی کارنر میٹنگ میں خود اکیلے پہنچ کر دکھائیں۔وہ اپنے انتخابی حلقہ کے بازاروں، گلی کوچوں سے شناسا نہ تھے۔ فیاض احمد موہل ڈپٹی کمشنر ہائوس گوجرانوالہ سے ضلع شہرکہیں بھی خود گاڑی ڈرائیو کر کے پہنچ سکتے ہیں۔ وہ یہاں پڑھتے بھی رہے ہیں اور ایک عرصہ مختلف سرکاری عہدوں پر فائز بھی ۔وہ یہاں چپے چپے سے آگاہی رکھتے ہیں اوراندرون شہر کے کڑاہی تکوں کے اچھے ٹھکانوں تک سے آگاہ ہیں۔ قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب ’’شہاب نامہ ‘‘ میں ڈپٹی کمشنر کی ڈائری کے باب میں سو کے قریب صفحات میں تیرہ مختلف عنوان باندھے ہیں۔ درخواستوں ، عرضیوں سے شروع ہو کریہ داستان تبادلے پر جا رکتی ہے ۔انہوں نے اس عہدے کی ساری شان و شوکت پوری تفصیل سے لکھ دی ہے ۔ لیکن آجکل ڈپٹی کمشنری اعزاز سے زیادہ ایک امتحان ہے ، کڑا امتحان۔ اسی لئے ہر افسر گجرات کی ڈپٹی کمشنری سے گریزاں ہے کہ گجرات کے چودھری اقتدار سے باہر بھی بے چودھری نہیں ہو تے ۔ اچھے بھلے چودھری کا چہرہ بے چودھری ہونے کا انگریز دور کا ایک واقعہ آغا بابر نے لکھا ہے ۔افسانہ نگار آغا بابر معروف قانون دان ، بیرسٹر اعجاز حسین بٹالوی کے بھائی تھے۔ وہ مارشل لاء کا زمانہ تھا۔ ان دنوں چودھری شہاب دین بلدیہ لاہور کے صدر ہوتے تھے۔ مارشل لاء حکام نے ادب آداب سے مرصع اچھی انگریزی بولنے والا ایک اسمارٹ پولیس افسر مانگا۔ قرعہ فال آغا بابر کے بھائی پولیس افسر ذو القرنین پر پڑا۔ ان کے فرائض میں ایک یہ بھی تھا کہ شام کو سورج ڈھلنے کے بعد پانی والے تالاب پرشہر لاہور کے معززین کی حاضری لینی ہوگی۔ یہ حاضری ایک انگریز فوجی کیپٹن کے سامنے لی جاتی ۔ جس کے پاس فوجی گوروں کی مسلح ٹکڑی کھڑی رہتی ۔ خوف کے مارے معززین شہر مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ پہلے پانی والے تالاب کی بند دکانوں کے تھڑوں پر آکر بیٹھ جاتے ۔ فوج کی ٹکڑی اپنے وقت پر لیفٹ رائٹ کرتے آتی ۔سبھی معززین و اکابرین اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ۔ ایک ساتھ جھکتے بولتے : ’’صاحب بہادر !سلام‘‘۔ گورا افسر کوئی جواب نہ دیتااور پولیس افسر ذو القرنین سے کہتا ’’حاضری بولو‘‘۔ پہلے ہی دن ذ والقرنین کو انگریز افسر نے ڈانٹا ۔ رجسٹر کھول کر حاضری جو لینے لگے ۔ بولے !’’چودھری شہاب دین‘‘ ۔ اس پر انگریز کیپٹن گرجا۔ ’’چو۔۔دری ۔۔مت بولو۔ شاب دین بولو‘‘۔ چھ فٹے لمبے تڑنگے قد کاٹھ کے جاٹ چودھری شہاب دین کا چہرہ   بے چودھری ہو گیا۔ چودھری ظہور الٰہی سے لے کر گجرات کے یہ چودھری اقتدار میں بھی رہے اور اقتدار سے باہر بھی لیکن      بے چودھری کبھی نہ ہوئے ۔ اور چودھری پن اس سے زیادہ کیا ہوگا کہ ابھی وہ حکومت سے باہر ہیں اور ڈپٹی کمشنری کی پوسٹ کیلئے انٹرویو دینے والے افسر گجرات کی ڈپٹی کمشنری سے کتراتے ہیں۔ ’’شہاب نامہ ‘‘ کے پہلے باب سے ایک عرضی: ۔
 غریبوں کا کام کرنا افسروں کا کام ہے
 افسروں کے آگے ہاتھ جوڑنا غریبوں کا کام ہے 
 لیکن موسم بہت بدل چکا ہے ۔ اب غریبوں سے ہر دم ہاتھ جڑوانے والے خو ب جانتے ہیں کہ کہاں سے انہوں نے نظر بچا کر گزرنا ہے اور کہاں وہ افسری دکھانے کی تاب رکھتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر کے حکم پر گوجرانوالہ شہر میں عرصہ دراز سے قائم ایک غیر قانونی پٹرول پمپ گرا دیا گیا۔لیکن اسی سڑک پرانہیں ایک اور ایسے ہی پٹرول پمپ کو نظر بھر کر دیکھنے کی بھی جرأت نہ تھی ۔ حضرت جبرائیلؑ کا مقدس وطیرہ بھی یہی رہا کہ جہاں پر جلنے کا امکان پائو ادھر سے پرے ہی رک جائو۔ افسروں کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ وہ افسر بہت ہوتے ہیں ۔ لیکن ایثار ،درد دل ، محنت ، ذمہ داری اور خوئے دلنوازی سے ہی ایک افسر معاشرے کیلئے مفید ہو سکتا ہے ۔ میاں شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے اور ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ ان کے چہیتے ۔ ڈپٹی کمشنر ہائوس کی اچھی بھلی دیوار کے باہراللہ جانے کیوں 9 انچ نئی دیوار بنا لی گئی ۔ پہلی اندرونی دیوار اسی طرح کھڑی رہی ۔قومی خزانہ کے ضیاع کے علاوہ عام شہریوں کیلئے فٹ پاتھ بھی تنگ ہو گیا۔ کالم نگار نے اس پر ایک کالم لکھا۔ جناب مجیب الرحمٰن شامی نے اپنے ٹی وی پروگرام نقطہ نظر میں میرے حوالے سے اس پر پروگرام بھی کیا۔ لیکن یہ سب کچھ لا حاصل رہا۔ کچھ بھی تو نہ ہواکہ’’ ڈپٹی کمشنرصاحب بہادر‘‘میاں شہباز شریف کو بہت مرغوب تھے ۔ کیوں ؟ اس سلسلے میں مختلف کہانیاں بیان کی جاتی تھیں۔ فٹ پاتھ پر بنی دیوار اب بھی موجود ہے ۔ افسر افسر ہوتا   ہے ۔ لیکن اب وہ افسر بھی ڈپٹی کمشنر ہائوس میں کہاں ہے ؟ ہرکوئی سندھ ہاری کمیٹی رپورٹ والے مسعود کھدر پوش جیسا سر پھرا بننے سے تو رہا۔ لیکن کوئی نہ کوئی بہتری ، کوئی نہ کوئی اصلاح ، کوئی نیک نامی ، کچھ تو ہو کہ ہر چارج لینے والے نے ایک دن تبادلہ بھی دیکھنا ہے ۔ سو!اس کالم کی غرض و غایت یوں ہے۔ میری بستی پیپلز کالونی میں ڈیڑھ ایکڑ رقبہ سرکارسے برائے نام قیمت پرایک رفاعی تعلیمی ادارے کے نام پر لیا گیا ہے ۔ عمارت سٹیزن کمیونٹی بورڈ کے تعاون سے بنائی گئی ہے ۔اب چند افراد مل جل کر اس بستی کے عام سی آمدنی والے مکینوں سے مہنگے پرائیویٹ تعلیمی اداروں جیسی پوری فیس لے رہے ہیں۔ حالانکہ انہیں یہ ادارہ نو پرافٹ نو لاس پر چلانا چاہئے۔ اگر یہ ادارہ سرکارکے کنٹرول میں چلا جائے توسبھی مستحق طالب علموںکی بہت مدد ہوگی۔اگر اس رفاعی تنظیم کے کرتا دھرتا، ایثار پیشہ ، بے غرض اور مخلص ہیں تو اس پر وہ بھی معترض نہیں ہونے چاہئیں ۔ اگر اسے سرکاری کنٹرول میں لینا ممکن نہ ہو تو کوئی ایسا مستقل طریق کار وضع کرلیا جائے کہ بچے سرکاری اسکولوں کی طرح برائے نام فیس پر تعلیم حاصل کر سکیں۔ وما علینا الا البلاغ  

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...