اصغر علی شاد … امراجالا
shad_asghar@yahoo.com
سبھی جانتے ہیں کہ پاکستانی پارلیمنٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے تناظر میں متفقہ قرار داد منظور کی ہے جس میں اعادہ کیا گیا ہے کہ بھارتی تسلط سے آزادی تک کشمیریوں کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھی جائے گی۔ مبصرین کے مطابق ملک میں بڑھتے دہشتگردی کے واقعات بھی باعث تشویش ہیں جس کے سدباب کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز بھرپور سعی کر رہے ہیں۔
دوسری جانب سبھی جانتے ہیں کہ11 فروری 1984 کو دہلی کی تہاڑ جیل میں کشمیری رہنما مقبول بھٹ کو پھانسی دی گئی تھی اور ان کا جسدِ خاکی بھی دہلی کی تہاڑ جیل کے کسی کونے میں دفن کیا گیا تھا اور اس کے کچھ عرصہ بعد کشمیر میں تحریکِ آزادی کا نیا مرحلہ ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ شروع ہو ا۔علاوہ 9 فروری کو ایل او سی کے دونوں اطراف شہید افضل گرو کی بھی برسی منائی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ دس برس قبل بھارت نے افضل گرو کو دہلی کی اسی تہاڑ جیل میں پھانسی دی اور شہید کا جسدِ خاکی بھی اس کے لواحقین کے سپرد کیے جانے سے انکار کر دیا تھا۔ مبصرین نے اس پس منظر کا جائزہ لیتے کہا کہ افضل گرو کو 13 دسمبر 2001 کو بھارتی پارلیمنٹ پر ہونے والے مبینہ حملے میں ملوث ہونے کے نام نہاد الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔طویل عدالتی کاروائی کے دوران ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت بھارتی حکومت پیش نہ کر سکی جس کا اعتراف خود بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ان الفاظ کے ذریعے کیا’’اگرچہ افضل گرو کے خلاف اس جرم میں ملوث ہونے کی کوئی ٹھوس شہادت یا ثبوت استغاثہ فراہم نہیں کر سکا مگر بھارتی عوام کے اجتماعی احساسات اور خواہشات کی تسکین کی خاطر انھیں پھانسی دینا ضروری ہے‘‘۔
مبصرین کے مطابق دنیا کی جدید عدالتی تاریخ میں ایسی بے انصافی کی مثال شائد ڈھونڈنے سے بھی نہ مل سکے۔جب کسی ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ایک جانب اس امر کا اعتراف کر رہی ہو کہ ملزم کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت بھی موجود نہیں مگر دوسری طرف کسی فرد یا گروہ کی نام نہاد تسکین کی خاطر اس بے گناہ شخص سے زندہ رہنے کا بنیادی انسانی حق چھین لیا جائے تو ایسے میں اس سزائے موت کو عدالتی قتل کے علاوہ اور بھلا کیا نام دیا جا سکتا ہے اور ایسا شائد برہمنی انصاف کے تقاضوں کے تحت ہی ممکن ہے وگرنہ کوئی مہذب اور نارمل انسانی معاشرہ شائد ایسی بے انصافی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
افضل گرو اور مقبول بٹ کی شہادت کی برسی کے موقع پر اس عزم کا اعادہ کیا جا رہا ہے کہ پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کی آزادی کی جدوجہد میں فعال کردار ادا کرتا رہے گا۔یاد رہے کہ اس سانحہ کے فوراًبعد مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف زبردست احتجاج کیا گیا تھا۔6 روز تک ریاست میں کوئی اخبار تک شائع نہ ہوا،موبائل فون اور انٹرنیٹ پر پابندی عائد کر دی گئی اور احتجاج پر قابو پانے کے لئے قابض بھارتی افواج نے کرفیو نافذ کر دیا۔ ان سانحات کا جائزہ لیتے اعتدال پسند ماہرین نے کہا کہ بھارت سمیت دنیا کے سبھی ملکوں میں یہ مسلمہ روایت ہے کہ رحم کی اپیل خارج ہونے کے بعد سزائے موت دیے جانے سے قبل متعلقہ ملزم کے اہلِ خانہ کو باقائدہ اطلاع دی جاتی ہے اور پھانسی دیے جانے والے فرد سے اس کے وارثوں کی آخری ملاقات کروائی جاتی ہے مگر دہلی سرکار نے اس حوالے سے بھی تمام انسانی اور اخلاقی ضابطوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے گرو کے لواحقین کو نہ اس کی رحم کی اپیل خارج ہونے کی اطلاع دی اور نہ ہی ان کی آخری ملاقات کروائی گئی اور نہ ان کی میت لواحقین کے حوالے کی گئی بلکہ تہاڑ جیل کے اندر ہی کسی نامعلوم گوشے میں دفن کر دیا گیا۔
بقول بہادر شاہ ظفر
پسِ مرگ قبر پہ اے ظفر کوئی فاتحہ بھی کہاں پڑھے
جو ٹوٹی قبر کا تھا نشاں،اسے ٹھوکروں سے اڑا دیا
خود جیل حکام کے مطابق جب گرو کو پھانسی دیئے جانے کا فیصلہ سنایا تو وہ بالکل مطمئن رہے، انھوں نے صبح اٹھ کر فجر کی نماز ادا کی، کچھ دیر قرآن کی تلاوت کی اور پھر با اعتماد ڈھنگ سے مقتل کی جانب رواں ہوئے شاید ایسی ہی صورتحال کیلئے کہا گیا تھا
جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں
یہ امر قابل ذکر ہے کہ گرو کو پھانسی دیئے جانے کے فیصلے کو اس حد تک پوشیدہ رکھا گیا کہ محض 6 لوگوں کو اس کا علم تھا۔ ان کے اہل خانہ کو دو روز بعد یعنی 11 فروری کو کوریئر سروس کے ذریعے گرو کو پھانسی دیئے جانے کی اطلاع دی تھی۔ تبھی تو بھارت کی اہم سیاسی جماعت سی پی آئی ایم کے جنرل سیکرٹری ’’پرکاش کرات‘‘ نے کہا تھا کہ افضل گرو کو پھانسی لگا کر جموں کشمیر میں حالات کو مزید بگاڑنے کے لئے خود دہلی سرکار کی پالیسیاں ذمہ دار ہیں۔14 مارچ2013 کے اکثر بھارتی اخبارات بشمول ’’سہارا‘‘ میں پرکاش کرات کا یہ بیان نمایاں ڈھنگ سے شائع ہوا تھا۔اس کے علاوہ نو بھارت ٹائمز نے لکھا کہ مقبوضہ ریاست میں بھارت نوازی کی روایتی شہرت رکھنے والی شخصیات اور جماعتیں بھی کشمیری عوام کے جذبات و احساسات کی وجہ سے بہت دباؤ میں ہیں اور بھارت کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ محسوس کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ میں 25کشمیری بھارت کے ہاتھوں شہید کیے جا چکے ہیں اور ہنوز شہادتوں کا یہ سفر جاری ہے۔ بہر حال امید کی جانی چاہیے کہ دہلی سرکار مقبوضہ ریاست میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ ترک کر کے تعمیری روش اپناتے ہوئے تنازعہ جموں و کشمیر کو وہاں کے عوام کی خواہشات اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی جانب سنجیدہ توجہ دے گی وگرنہ مکافاتِ عمل کے ابدی اصولوں کے تحت خود بھارت بھی مزید داخلی مشکلات سے دوچار ہو سکتا ہے۔