عتیق انور راجہ
الحمرا آرٹس کونسل لاہور میں تین روزہ پاکستان لٹریچر فیسٹول جمعہ کے دن شروع ہونے کادعوت نامہ کی دن پہلے وصول ہوچکا تھا۔بے شک ڈائریکٹر کراچی آرٹس کونسل شکیل خان ایک محبتی انسان ہیں۔کراچی میں پچھلے پندرہ سالوں سے لٹریچر فیسٹول منعقد ہورہا ہے۔اب تو یہ فیسٹول ایک تہوار کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ جس میں نہ صرف پاکستان کے ہر شہر سے لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے بلکہ دنیا بھر سے ادب وثقافت سے محبت کرنے والے تین روزہ تقریبات میں شرکت کے لیے پہنچے ہوتے ہیں۔
جمعہ کی صبح بڑی خوشگوار تھی۔الحمرا میں افتتاحی تقریب تین بجے شروع ہونا طے تھی۔میں صبح بارہ بجے گوجرانوالہ سے لاہور کے لیے نکل پڑا۔رستے میں سوشل میڈیا سے پتہ چلا کہ ملک پاکستان کے نامور شاعر،ادیب ،کالم نگار،ڈرامہ رائٹر اور استاد امجد اسلام امجد اس فانی دنیا کو الوداع کہہ گئے ہیں۔ اب ذہن میں کچھ کشمکش شروع ہوگئی کہ منتظمین کیا کریں گے۔رابطہ کیا تو سب نے افسوس کا اظہار کیا۔لیکن یہ بتایا گیا کہ تقریب وقت پہ ہی شروع ہوگی اس لیے کہ ادب سے محبت کرنے والے لوگ جہازوں بسوں ٹرینوں،کاروں،موٹر سائیکلوں اور پیدل پتہ نہیں کہاں کہاں سے داتا کی نگری لاہور کی طرف چلے ہوئے ہیں۔افتتاحی تقریب کے لیے تین بج کے پندرہ منٹ پہنچا تو الحمرا کا ہال نمبر ایک مکمل بھر چکا تھا۔سیڑھیوں پہ بیٹھنے کی بھی کوئی گنجائش نہ تھی۔بلکہ سچی بات یہ ہے کہ پیچھے دور تک کھڑے ہوکے دیکھنا بھی ممکن تھا۔ڈاکٹر ہما میر نے نظامت کے فرائض سنبھالے ہوئے تھے۔سٹیج پر ملک کے نامور شاعر افتخار عارف،انور مقصود،حامد میر وزیر تعلیم سندھ سردار شاہ اور دوسرے نامور لوگ ستاروں کی طرح چمک رہے تھے۔لیکن حیرت ہوئی کہ لاہور میں تقریب ہونے کے باوجود پنجاب سرکار کا کوئی نمائندہ وہاں موجود نہ تھا۔منتظم اعلیٰ احمد شاہ نے درود پاک سورہ فاتحہ کل شریف پڑھ کے امجد صاحب کے لیے دعائے مغفرت کی۔افتخار عارف صاحب نے امجد صاحب کی خدمات کو سراہا۔حامد میر نے بڑی نپی تلی گفتگو کی۔انہوں نے امجد صاحب کے آخری کالم کا زکر کیا جس میں امجد صاحب نے لکھا تھا کہ وہ چند ہفتے پہلے جب عمرہ کرنے گئے تو خانہ خدا میں اْنہوں نے ایک دعا کی۔وہ دعا یہ تھی کہ امجد صاحب نے اْن سب لوگوں کو معاف کردیا جنہوں نے زندگی میں اْنہیں کسی بھی قسم کی تکلیف یا دکھ پہنچایا تھا۔حامد میر اس کے بعد کچھ پل رکے اور کہا لیکن یہ معافی صرف اْن کے لیے تھی جنہوں نے امجد صاحب کی ذات کو نقصان پہنچایا ہو۔جنہوں ریاست پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے ان کے لیے اس جہاں اور اگلے جہاں کوئی معافی نہیں ہوگی۔انہوں نے کہا کہ لوگ پوچھتے ہیں پاکستان کا اب کیا ہوگا۔ یہ نقطہ سب ہی سمجھ لیں کہ سب کو معاف کیا جاسکتا ہے لیکن ریاست کے دشمنوں کو کسی حال میں معاف نہیں کیا جاسکتا۔ احمد شاہ کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ آنکھوں میں چمک اور لہجے میں اپنائیت چھلکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سارے ملک یہ فیسٹول کیا جائے گا۔پسماندہ علاقوں کے نوجوانوں کو لاہور و کراچی مدعو کرکے مکالمہ کی اہمیت و ضرورت پر فکر انگیز گفتگو ہوئی۔وزیر تعلیم سندھ جناب سردار شاہ نے بڑی خوب گفتگو کی۔اْنہوں کہاکہ پنجاب کے حکمران بابا فرید،شاہ حسین،وارث شاہ،بھلے شاہ،میاں محمد بخش ،سلطان باہو اور دوسرے صوفیا کو فراموش کرچکے ہیں۔پنجاب میں پنجابی زبان کو اہمیت نہیں دی جارہی ہے۔سردار شاہ جی نے پنجاب کے بارے کمال تیاری کے ساتھ گفتگو کی بلکہ وہ جا بجا پنجابی لفظ بھی بولتے رہے۔دوسرا سیشن تھااکیسیویں صدی کے تہذیبی تقاضے۔جس میں پروفیسر ڈاکٹر بصیرہ ،جسٹس ناصرہ اقبال و دیگر نے بہت جامع گفتگو کی۔ایک بات پہ سب کا زور تھا کہ اقبال تو فکر و عمل کا شاعر تھا پھر ہم ہی کیوں پریشانیوں کا شکار ہیں۔جواب بڑا سادہ ہے کہ ہم طلبا و طالبات کو اکیسویں صدی میں بھی صرف ڈگریوں کے لیے ہی تعلیم کیوں دلوا رہے ہیں۔ہمارے بچوں کو فنون اور معیشت کیوں نہیں پڑھائی جارہی۔اخلاقیات کی تعلیم پہ بہت سرمایہ نہیں لگتا۔لیکن بدقسمتی سے ہم اخلاقی پستی کا شکار ہیں۔ اقبال نے کیا خوب کہا تھا کہ
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائی سادگی سے مزدور کھا گیا مات
پاکستان میں ماہر معاشیات کیوں نہیں بیٹھ کے سوچتے کہ یہ کیسا نظام چل رہا ہے جس میں امیر امیر اور غریب غریب تر ہو رہا ہے۔قوم سب کچھ سوشل میڈیا پہ حل کرلینا چاہتی ہے۔سوشل میڈیا نے یہ تمیز ہی ختم کردی ہے کہ کیا بولنا ہے اور کیا نہیں بولنا۔لیکن شاعروں ادبیوں کالم نگاروں کو درد دل کے ساتھ لکھتے رہنا چاہیے جیسا کہ حضرت اقبال نے کہا تھا
وصل کے اسباب پیدا ہوں تیری تحریر سے
دیکھ کوئی دل نہ دکھ جائے تیری تقریر سے
ہمیں ایک تھنک ٹینک بنا کے طے کرنا ہوگا کہ اظہار کی کتنی آزادی ہونی چاہیے۔اور پھر آگے بڑھنے کے لیے لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا۔لیکن اچھے مستقبل کی طرف سفر سے پہلے ہماری نظر اپنی میراث پہ ہونا بہت ضروری ہے۔ہمارا میراث سے تعلق ٹوٹا تو ہم جیسے معلق ہوچکے ہیں۔کوئی ہمارے ماضی بارے جو چاہے کہہ دے کوئی روکنے والا نہیں۔ہم خود اپنے ماضی سے آگاہ ہی نہیں ہیں۔شاعر خواب دیکھنا سکھاتا ہے۔جبکہ ہمارے شاعر مشاعروں اور وا واہ کے لیے لکھ رہے ہیں۔شاعروں کو چاہیے کہ قوم کو اپنی ثقافت و میراث سے جوڑنے کے لیے قلم کا استعمال کریں۔
یہ نقطہ قابل غور ہے کہ جو قومیں اپنی ثقافت بھول جاتی ہیں انکا جغرافیہ بدل جاتا ہے۔بے شک آج کل ملک میں عجیب حبس کاموسم ہے۔کہیں کسی کے خلاف سچ بولنے پہ آواز بند کردی جاتی ہے۔لوگ کشمکش کا شکار ہیں۔
چینی مقولہ ہے۔حبس کا موسم چاول اور ذہنی تخلیق کے لیے بہترین ہوتا ہے۔کہتے ہیں نا دشمن بھی کبھی کبھی فائدہ دے جاتے ہیں۔دنیا میں سب سے زیادہ ظلم و زیادتی جنگ کے میدانوں اور عدالتوں میں ہوتی ہیں۔جبکہ اعلی پائے کے شاعر اور بڑے ادیب غلامی کے دور میں سامنے آتے ہیں۔ آسودگی کے دور میں مزاح اچھا لکھا جاتا ہے۔جیسے ہمارے دور غلامی میں نایاب ادب تخلق ہوا۔اقبال و غالب اور وارث شاہ جیسے قد آور شاعر سامنے آئے اور 47 کے بعد غلامی کا نیا دور شروع ہوا۔سچ لکھنے والوں کو کوڑے مارے گئے۔کتابیں ضبط کرلی گئیں۔ہمارے حکمران خود تو کتابیں نہیں پڑھتے لیکن انہوں نے کتابیں اور کالم پڑھنے کے لیے بندے رکھے ہوئے ہیں۔مجیب الرحمن شامی سے سوال ہوا کہ کہا جاتا ہے شریف برادران کی بیٹھکوں میں ماسوائے ٹیلی فون ڈائری دوسری اور کوئی کتاب نہیں دیکھی جاتی۔شامی صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا جی بالکل ایسا ہی ہے۔کسی صاحب نے کیا خوب کہا کہ لکھاری کاجتنا دل صاف ہوگا۔ذاتی مفادات نہ ہوں گے قلم اتنا ہی مضبوط ہوگا۔ لیکن پڑھنا لکھنے سے اہم ہے۔پڑھنا آکسیجن ہے۔تعجب ہے ہمارے حکمران بنا پڑھے کیسے ملک چلا رہے ہیں۔یا شاید ہمارے حکمران صرف ہٹلر کو پڑھتے ہیں اور پھر مرضی کے لکھاریوں یا درباریوں کے لکھی تحریریں انہیں پسند آتی ہیں۔ طاقتور محکمے اور حکمران جتنا قلم سے ڈرتے ہیں اور کسی سے نہیں ڈرتے۔نور الہدی شاہ نے کہا ستر سال سے کمپنی سرکار کہہ رہی ہے۔سیاست دان پڑھے نہیں جاہل ہیں۔سیاست دان پھر بھی پڑھنے کی بجائے نمبر بنا کے سرکار بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ایک کے بعد ایک رسوا ہوکے اقتدار سے بلکہ ملک سے باہر نکالا جارہا ہے۔لیکن سب ابھی تک کمپنی بہادر کے زیر اثر ہیں۔کیونکہ طاقت کا منبہ وہی ہیں۔کمپنی بہادر کے ہوتے ہوئے ہماری ذمہ داریوں پہ بات کرتے ہوئے سہیل وڑائچ نے کہا کہ سفاک سے سفاک کمپنیاں دنیا میں موجود رہی ہیں۔ دستور شکنی بھی عوام کے نام پر ہوتی چلی آرہی ہے لیکن جب جہاں لوگوں میں شعور پیدا ہوا۔سیاست دان ریاست سے مخلص ہوئے وہاں طاقت کاسرچشمہ عوام قرار پائے۔آمر نئی آوازوں کو لکھنے والوں کو سامنے آنا چاہیے۔
لوگ ہزاروں کی تعداد میں الحمرا لاہور آرہے ہیں میلہ سا لگا ہوا ہے۔پولیس والوں کے چہرے بھی خوشیوں سے کھلے ہوئے ہیں۔اللہ کرے یہ فیسٹول لوگوں کے دلوں میں محبتیں پیدا کرنے کا سبب بنے۔دوریاں کم ہوں۔پاکستان لٹریچر فیسٹول کے آرگنائززر۔احمد شاہ اور شکیل خان کے لیے بہت سی دعائیں۔(جاری ہے )
پاکستان لٹریچر فیسٹول الحمرا لاہور
Feb 13, 2023