جماعت اسلامی کا مہنگائی مارچ اور سراج الحق کا مطالبہ


تحریر: محمد عمران الحق۔لاہور
 آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کیلئے حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمت میں 7روپے فی یونٹ تک اضافہ، جی ایس ٹی کی شرح18فیصد تک بڑھانے کی منظور ی قابل مذمت ہے،اس سے مہنگائی کا طوفان آئے گا جو سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔پی ٹی آئی اورپی ڈی ایم دونوں نے ملک و قوم کو آئی ایم ایف کی غلامی میں دینے کے سوا کچھ نہیں کیا۔آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کو قوم کے سامنے لایا جائے۔ لاہور ہائی کورٹ کا بجلی پر فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کو غیر قانونی قرار دینا اور 500یونٹس تک سبسڈی دینے کا حکم خوش آئند مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت عدالتی حکم پر عمل درآمد کو یقینی کیونکر بنائے۔؟انہی لوگوں نے تو ملک و قوم کو اس نہج تک پہنچایا ہے۔بد قسمتی سے حکمران اپنی شاہانہ طرز زندگی اور اللوں تللوں کو ختم کرنے کی بجائے عوام پر مسلسل ٹیکسوں کا بوجھ ڈال رہے ہیں۔معاشرے کو اقتصادی موت سے بچانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر ٹھوس منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ نااہل اور کرپٹ افراد کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے۔ہر دور حکومت میں چہرے اور پارٹیاں بدل بدل کر انہی لوگوں نے قومی خزانے کو لوٹا اور بیرون ممالک جائیدادیں بنائی ہیں۔
گزشتہ دنوں جماعت اسلامی نے آئی ایم ایف کی ظالمانہ شرائط،موجودہ حکمرانوں کی ناکام معاشی پالیسیوں اور روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف تین روزہ10 تا 12فروری,لاہور سے راولپنڈی تک مہنگائی مارچ کا اہتمام کیا۔امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی قیادت میں ہونے والا مارچ لاہور سے شروع ہوا، داتا دربار، شاہدرہ، کامونکی،مریدکے،گوجرانوالہ، گجرات سے ہوتا ہوا راولپنڈی پہنچ کا اختتام پذیر ہوا۔ سراج الحق نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ ظالموں اور لیٹروں سے حساب ہوگا۔عوام کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا، پاکستان اور کرپٹ ٹرائیکا ساتھ نہیں چل سکتے۔ جیل یا بنک بھرو نہیں بلکہ غریب کا پیٹ بھرو تحریک شروع کرنی چاہئے۔اس موقع پرامیر العظیم، لیاقت بلوچ،اظہر اقبال حسن، فرید احمد پراچہ، محمد جاوید قصوری،ضیا الدین انصاری ودیگرنے احتجاجی مارچ کی روانگی سے قبل شرکا سے خطاب کیا۔مقررنین نے کہا ہے کہ ملک میں قانون کی بالادستی کو قائم کرنے کے لئے عدالتی نظام کو حقیقی معنوں میں ٹھیک کرنا ہوگا ہے۔ یہ ہمارا المیہ ہے کہ جتنے بھی بڑے چور، لٹیرے اور ڈاکو ہیں و ہ قانون سے بالاتر ہیں اور اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں، اہم عہدوں پر فائز ہیں، اور جتنے چھوٹے اور غریب افراد ہیں ان کے لیے ایک الگ قانون ہے۔ جماعت اسلامی بر سر اقتدار آکر یہ تفریق ختم کرنا چاہتی ہے۔سیاسی انتقامی کارروائیاں ملک کے اندر انتشار اور افراتفری کو پروان چڑھا رہی ہیں حکمران ہوش کے ناخن لیں۔  محب وطن قیادت کو موقع دیا جائے تاکہ ملک و قوم کو مسائل کی دلدل سے نکل سکیں۔ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک عوام کو سستااور فوری انصاف میسر نہیں آجاتا۔
 میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستا ن میں حقیقی تبدیلی کے لیے عدالتی نظام کو مضبو کرنا ہوگا۔ عدالتیں آزاد ہیں تو ہی ملک کے اندر انصاف کا بول بولا ہوسکتا ہے اور کرپشن کا خاتمہ ممکن ہوگا۔ سو د اللہ اور اسکے رسول ؐکے خلاف کھلم کھلا جنگ کے مترادف ہے۔ بلاسود بینکاری سے عوام کی زندگی میں خوشحالی آئے گی اور ملکی معیشت مستحکم ہوگی۔ملک میں اس وقت تاریخی مہنگائی ہے۔ عوام کی قوت خرید بری طرح متاثر ہوچکی ہے۔ لوگوں کو دو وقت کی روٹی کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھانے پڑتی ہیں۔ پاکستان کا مالیاتی خسارہ 809ارب روپے سے تجاوز کرچکا ہے۔ معیشت میں استحکام کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ صنعتوں کو گیس کی بندش کے فیصلے سے ہزاروں مزدور بے روزگار ہوچکے ہیں۔ ملک بھر میں تین لاکھ سے زائد چھوٹے کارخانے بند ہیں۔  قدرتی وسائل سے مالامال پاکستان نا اہل حکمرانوں کے ڈنگ ٹپاؤ اور غلط پالیسیوں کی بدولت مسائلستان بن چکا ہے۔ فرسودہ نظام سے عوام الناس کا اعتماد ختم کرکے رکھ دیا ہے۔ مسلم لیگ ن اورپیپلز پارٹی کے بعد تحریک انصاف کی تبدیلی کو بھی دیکھ لیا ہے۔ تینوں پارٹیاں اپنے اپنے مفادات پر کام کررہی ہیں۔ قومی اسمبلی میں سود کا مسئلہ ہو یا شراب پر پابندی لگانے کا سب ایک ہی جگہ اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ حکمرانوں کے پاس عوام کو دینے کے لیے جھوٹے وعدوں اور نعروں کے سوا کچھ نہیں۔یوں محسوس ہوتا کہ جیسے کسی کو بھی عوام کے مسائل کے حل سے غرض نہیں۔
مریم نواز نے ایبٹ آباد میں تقریر کرتے ہوئے قوم کو یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے پاکستان کو جیتنے بھی مسائل بالخصوص آئی ایم ایف کے حوالے سے درپیش ہیں وہ سب عمران خان کے تین برسوں میں پیدا ہوئے ہیں۔ تو میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اس ملک پر 35برسوں سے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی حکمرانی کرتی چلی آرہیں ہیں جتنی لوٹ مار ان دونوں بڑی جماعتوں نے کی اور عوام کو آئی ایم ایف کی غلامی میں دیا تھا اس کا حساب کون دے گا۔؟

ای پیپر دی نیشن