زلزلوں کی شدت سے زمیں کانپ رہی ہے۔



فیض عالم 
قاضی عبدالرئوف معینی
براد ر اسلامی ممالک ترکیہ اور شام میں زلزلے نے بڑے پیمانے پر تباہی مچا دی ۔لمحوں میں ہزاروں عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔ہزاروں افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔لاکھوں افراد زخمی ہوگئے۔خبروں کے مطابق سینکڑوں خاندان اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔امت مسلمہ قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر رنجیدہ ہے ۔پاکستان متعدد بار اس قسم کے خوفناک زلزلوںکا شکار ہو چکا ہے اس لیے ہم متاثرہ ممالک کے دکھ ودرد کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ آزمائش کی اس گھڑی میں ہم اپنے بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ہماری دعائیں اہل ترکیہ اور اہل شام کے ساتھ ہیں۔اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور وہاں کے باشندوں کو عافیت میں رکھے۔مرحومین کے درجات کو بلند فرمائے اور  ورثاء کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔پوری دنیا نے زلزلے سے متاثرہ تمام شہریوں سے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔بہت سے ممالک نے ہر ممکن مدد فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔دوست ممالک سے سرچ ریسکیو کے ماہرین متاثرہ  علاقوں میں پہنچ رہے ہیں۔تمام ممالک خصوصا ً اسلامی ممالک کو چاہیے کہ متاثرہ  افراد کے ساتھ بھر پور تعاون کریں۔اس میں شک نہیں کہ زلزلہ ایک قدرتی آفت ہے جس سے بعض اوقات بڑی بڑی تباہیاں ہو جاتی ہیں اورانسانی تیاریاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ماہرین ارضیات کو اس حوالے سے تحقیق میں وسعت پیدا کرنا ہو گی۔ یہ قدرت کے مقابلے میںانسانی ے بسی کا بھی واضح ثبوت ہیں۔انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی حدود میں رہے اور سرکشی نہ کرے ۔ہر وقت اپنے رب سے مدد مانگے۔ معروٖ ف شاعر ضیاالحق قاسمی صاحب خوب کہا کہ
ؑعذاب الہٰی اس مت کہو تم
گھڑی آزمائش کی ہے میرے لوگو 
خدا کی عنایات ہیں ہم پہ لاکھوں
مگر آزمائش ہے قانون قدرت
دلایا گیا ہم کو احساس لغزش
ؑؑعذاب الہی اسے مت کہو تم
خدا سے دعائیں سبھی لوگ مانگیں
گھڑی آزمائش کی یوں ختم ہوگی
فرشتے وہ رحمت کے پھر بھیج دے گا
وہ ستار بھی ہے وہ غفار بھی ہے
دور حاضر کی مورخ محترمہ نگار سجاد ظہیر صاحبہ نے تاریخی حقائق بیان کرتے ہوئے لکھا کہ شام کا شمالی علاقہ صدیوں سے زلزلوں کی زد پر ہے قبل مسیح میں بھی یہاں زلزلے آتے تھے۔اموی اور عباسی دور میں بھی یہاں زلزلے آتے  رہے۔۱۸۷۲  میں اتنا شدید زلزلہ آیاتھا کہ پورا شہر تباہ ہوگیا تھا۔شام کا شمالی علاقہ، ترکیہ کا جنوب مشرقی علاقہ اور استنبول یہ سارے علاقے فالٹ لائن پر قائم ہیں۔تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔وہ علاقے جہاں زلزلے ، سیلاب اوردیگر قدرتی آفات کا مسکن ہیں انسانوں کو چاہیے کہ وہاں سے ہجرت کر جائٰیں کم ازکم وہاںکثیرالمنزلہ اور بھاری بھرکم عمارات نہ تعمیر کی جائیں۔اگر مجبوری ہو تو ان عمارات کا زلزلہ پروف ہونا ضروری ہے۔ماہرین ارضیات کی تجاویز فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں۔متعدد بار پاکستانی عوام بھی اس طرح کی قدرتی عوام کا سامنا کر چکی ہے۔اس سے پہلے کہ پھر کوئی بڑا سانحہ ہو جائے  ان آفات سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیرلازم ہیں۔
حکومت وقت نے متاثرہ برادر اسلامی ممالک سے بھرپوریک جہتی کا مظاہرہ کیا۔ ضروریات زندگی پر مشتمل امدادی سامان ، طبی عملہ ،اور دیگر ماہرین روانہ کیے۔ترکیہ نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے ۔اس مشکل وقت میں ترک اور شامی  بھائیوں کے ساتھ تعاون ہمارا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے۔اگرچہ عوام کی اکثریت مہنگائی کے مسلسل جھٹکوں کی وجہ سے  زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے پھر بھی اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے ترک اور شامی بھائیوں کی مدد کے لیے کمر بستہ ہے۔دین اسلام نے دنیا کے تمام مسلمانوں کو اخوت اور بھائی چارے میں پرو دیا ہے۔اس رشتہ کو مضبوط بنانا وقت کی ضرورت ہے۔
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستان کا ہر پیر و جواں بے تاب ہو جائے۔

قاضی عبدالرؤف معینی

ای پیپر دی نیشن