q
اور لائن
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام
معروف صحافیوں ، دانشوروں، شاعروں اور ادیبوں کی شرکت نے فیسٹول کی رونق کو بڑھا دیا
امجد اسلام امجد کی اچانک وفات نے سب کو افسردہ کر دیا ،ان کی مغفرت کی دعائیں تقریبا ہر سیشن میں کی گئیں
سینئر اداکارہ ہما میر ،فریال گوہر اور منور سعید جیسے شوبز کے ستارے اس فیسٹیول میں نظر آئے
افتتاحی تقریب سے قبل لاہور شہر کی بڑی سڑکوں اور چوراہوں پر بینرز اور پوسٹر آویزاں کیے گئے
فیسٹیول میں نوجوانوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔
۔۔۔۔۔۔
عنبرین فاطمہ
آرٹس کونسل کراچی کا تین روزہ پاکستان لٹریچر فیسٹیول گزشتہ روز اختتام پذیر ہو گیا۔ سندھ کے صوبائی وزیر تعلیم و ثقافت سید سردار شاہ نے فیسٹیول کا افتتاح کیا۔ جب کہ انور مقصود، افتخار عارف، حامد میر، نیئرعلی دادا، کامران لاشاری، جسٹس (ر) ناصرہ اقبال، کشور ناہید، ظفر مسعود، میاں فقیر اعجاز الدین، فتح محمد ملک، پیرزادہ قاسم رضا صدیقی رضی احمد ودیگر بھی اس موقع پر موجود تھے، الحمراء کے ہال نمبر1 میں جگہ نہ ہونے کے باعث ہزاروں افراد نے باہر اسکرین پر افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔ افتتاحی تقریب سے قبل لاہور شہر کی بڑی سڑکوں اور چوراہوں پر بینرز اور پوسٹر آویزاں کیے گئے، الحمراء آرٹس کونسل کو جھنڈیوں، پوسٹروں اور بینرز سے سجایا گیا ، جبکہ کتابوں کے اسٹال بھی لگائے گے۔ فیسٹیول کے پہلے روز افتتاحی اجلاس ہوا جس کی میزبانی کے فرائض ہما میر نے انجام دئیے ، جبکہ کلیدی خطبہ فقیر اعجاز الدین نے کیا۔ ،سہیل احمد کے ساتھ ایک نشست رکھی گئی، اکیسویں صدی کے تہذیبی چیلنج پاکستان اور فکر اقبال پر ایک سیشن رکھا گیا۔ جس کی نظامت طاہر حمید تنولی نے کی اس سیشن میں ناصرہ اقبال ، تحسین فراقی ، سید نعمان الحق ، بصیرہ عنبرین نے بطور مہمان شرکت کی، ایک کنسرٹ کا اہتمام کیا گیا جس میں علی عظمت ، سائیں ظہور و دیگر نے شرکت کی ۔دوسرے دن اردو فکشن میں نیا کیا کے نام سے ایک سیشن رکھا گیا۔ جسکی نظامت کے فرائض آمنہ مفتی نے انجام دئیے۔ شرکائے گفتگو میں طاہرہ اقبال ، اخلاق احمد ، حمید شاہد ، ضیاء الحسن ، خالد فیاض ، سفیر حیدر شامل تھے۔ اسی طرح سے اکیسویں صدی میں پنجابی ،فرید سے فرید تک ، عوامی دانشوری کی روایت پر سیشن رکھے گئے ۔عاصمہ شیرازی کی کتاب کہانی بڑے گھر کی ، تقریب رونمائی کی گئی اس سیشن کی نظامت کے فرائض وسعت اللہ خان نے ادا کئے ماڈرن سٹوری ٹیلر ، بچوں کا ادب پربھی سیشن کئے گئے احمد بشیر کا کنبہ میں بشری انصاری نے میزبانی کے فرائض انجام دئیے۔ نوجوانوں کے نام سے ایک سیشن رکھا گیا جس میں حامد میر نے گفتگو کی اور نظامت کے فرائض محمد احمد شاہ نے ادا کئے۔ میں بھناں دلی دے کنگرے ، لاہور پر کمال پر سیشن اور کتابوں کی رونمائی ، بھی ہوئی۔علی زریون کے ساتھ ایک سیشن رکھا گیا ، اور نظامت کے فرائض یاسر حسین نے ادا کئے ۔ شان شاہد کے ساتھ ایک سیشن رکھا گیا ، مشرقی پاکستان ،ٹوٹا ہوا تارا ، نئے نقاد کے نام خطوط کی رونمائی کی گئی ، ٹی وی پاکستانی سماج کا ترجمان ؟ یاد گارزمانہ میں یہ لوگ ، پاکستانی آرٹ کے پچھتر سال ، مشاعرہ ، کمالیہ اور علی ظفر کا کنسرٹ رکھا گیا۔ تیسرے روز نئی شاعری نئے امکانات ،پنجاب کی لوک داستانیں ، پاکستان کے کرائسسز ،کتابوں کی رونمائی ، تعلیم کا سفر آگے یا؟ گریزپا موسموں کی خوشبو ، سرائیکی زبان کا ادب ، امکانات اور رجحانات ،علی ظفر کے ساتھ ایک نشست ، کنج قفس کتاب کی رونمائی کی گئی ، بری عورت کی کتھا اور تازہ نظمیں ، ہم دیکھیں گے کتاب کی رونمائی ، رونمائی سخن افتخار ، آرٹ میں نیا کیا ، انور مقصود کا پاکستان ، اختتامی اجلاس ، می رقصم ناہید صدیقی کے ساتھ اور آخری دن کے آخری سیشن میںایک کنسرٹ رکھا گیا جس میں ساحر علی بگا ، نتاشا بیگ اور عاصم اظہر نے پرفارم کیا۔ فیسٹیول کے لیے پہلے روز تقریباً دس ہزاروں افراد نے الحمراء کا دورہ کیا جن میں اکثریت نوجوانوں کی تھی جنہوں نے انور مقصود اور حامد میر اور احمد شاہ کا پرجوش استقبال کیا۔ صوبائی وزیر سید سردار علی شاہ کے خطاب کے دوران نوجوانوں نے بار بار تالیاں بجاکر ان کا خیرمقدم کیا جن کی تقریب انڈس ویلی کی ثقافت اور پنجاب کے صوفیائے کرام کے تذکرہ پر تھی، اجلاس سے قبل امجد اسلام امجد کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی، جنہوں نے اس فیسٹیول میں شامل ہونا تھا لیکن ان کا فیسٹیول کے پہلے ہی روز انتقال ہو گیا۔ امجد اسلام امجد کی خالی کرسی پر ان کی تصویر رکھی گئی، آرٹس کونسل کراچی کے ڈائریکٹر ایڈمن شکیل خان نے امجد اسلام امجد کے لیے دعائے مغفرت کی جبکہ افتخار عارف اور کشور ناہید نے امجد اسلام امجد کی خدمات پر اظہارِ خیال کیا، سندھ کے صوبائی وزیر تعلیم وثقافت سید سردار علی شاہ نے اپنے خطاب کا آغاز امجد اسلام امجد کے شعر سے کیا اور کہا کہ وہ دور ہو کر بھی ہم سے دور نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا کہ احمد شاہ کی قیادت میں سندھ سے ساڑھے چار ہزار سال پرانی فقیر میاں امیر کی روایت لے کر آئے ہیں اور اس میں صرف پیار ہی پیار ہے ۔ میاں امیر قلندر لعل شہباز کی زمیں سے وارث شاہ کی زمین پر تھے اور میاں امیر کو گولڈن ٹمپل کی سنگ بنیاد کے لیے لے جایا گیا وہ بین الامذاہب کی ہم آہنگی کے امین تھے، سردار شاہ نے کہاکہ ہماری اس تہذیب کو ازسرنو ترتیب دینے کی ضرورت ہے جو گم ہو رہی ہے، حکومتیں ادب تخلیق نہیں کرسکتیں یہ کام اداروں کا ہے، آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی اور احمد شاہ احسن طریقے سے یہ کام کررہے ہیں لیکن حکومتیں سرپرستی کرتی ہیں اور ہم سرپرستی جاری رکھیں گے، انہوں نے کہاکہ ہم بہت کچھ کھو چکے اب ہمارے پاس کھونے کو کچھ نہیں رہا، سچل سرمست ، لعل شہباز قلندر اور بھلے شاہ کی شاعری میں جو پیغام ہے اس کو عام کرنے کی ضرورت ہے تو پنجاب حکومت ایسے لوگوں کی سرپرستی کرے جو صوفیائے کرام کے امن کے پیغام کو عام کرنے کی کوشش کررہے ہیں، انہوں نے کہاکہ سندھو دریا پنجاب سے سندھ کی طرف بہتا ہے لیکن آج احمد شاہ ادب کا دریا لے کر سندھو دریا کے الٹے رْخ
کراچی سے لاہور آیاہے۔ یہ سفر ہمارا پانچ ہزار سال پرانا سفر ہے جو کشمیر سے وادی سندھ تک ایک ثقافت ہے اس ثقافت میں بڑے بڑے ہتھیار نہیں اور نہ کوئی بادشاہ ہے، بلکہ سارے فقیر اور امن کے داعی ہیں، انہوں نے کہاکہ ان نوجوانوں کو لاوارث نہیں چھوڑا جاسکتاجو آج ادب اور ثقافت کے نام پر الحمراء میں جمع ہوئے ہیں، بھلے شاہ اور بابا فرید کے یہ وارث ہیں اور ان صوفیوں کا پیغام ان کو امن کا راستہ دکھاتا ہے، انہوں نے پاکستان لٹریچر فیسٹیول پر احمد شاہ کو مبارکباد دی اور کہاکہ حکومت سندھ نہ صرف پنجاب بلکہ کے پی کے، بلوچستان اور آزاد کشمیر میں بھی سپورٹ کرے گی، صدر آرٹس کونسل کراچی محمد احمد شاہ نے خطبہ استقبالہ میں کہاکہ جس قوم کی ثقافت مر جاتی ہے وہ قوم زندہ نہیں رہ سکتی، ہمارے معاشرے میں بہت نفرتیں اور لڑائیاں ہیں ہمیں ان نفرتوں کو ادب اور ثقافت کو ترقی دے کر ختم کرنا ہے اور ہم تمام اکائیوں میں بھائی چارہ، امن اور دوستی کا پیغام لے کر لاہور آئے ہیں تاکہ پاکستان کے نوجوانوں کو ادب اور ثقافت کے ساتھ جوڑیں لہٰذا ہمیں ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دینا چاہیے اور آج لاہور آنے کا ہمارا مقصد بھی یہی ہے، انہوں نے کہاکہ لاہور،ملتان اور سندھ ایک ہی انڈس تہذیب کا حصہ ہیں تاہم لاہور قدیم ثقافتی شہر ہے جس کی اپنی تاریخی و تہذیب ہے، ہم ایک ایسے شہر سے یہاں آئے ہیں جو ہجرت کرنے والوں نے سو دو سو سال پہلے آباد کیا جیسے سمندر کے کنارے دنیا کے دوسرے شہر آباد ہوئے، لاہور کے دوستوں کا اصرار تھا کہ عالمی اردو کانفرنس کی طرز پر لاہور میں بھی ایک کانفرنس منعقد کی جائے ہم نے پاکستان لٹریچر فیسٹیول متعارف کرایا جس کو ہم پورے پاکستان کی اکائیوں میں لے کرجارہے ہیں، انہوں نے کہاکہ لاہور کے شاعروں ادیبوں کا شکریہ جو آج اس کانفرنس میں موجود ہیں اور نوجوانوں نے فیسٹیول میں شریک ہوکر فیسٹیول کو چار چاند لگا دیے، احمد شاہ نے کہاکہ لاہوریوں کا یہ ہی جذبۂ محبت رہا تو ہم الحمراء کے اشتراک سے ایسی کانفرنسیں بار بار کریں گے۔ معرو ف دانشور انور مقصود ، حامد میرفقیر اعجاز الدین اور ذوالفقار زلفی نے بھی اظہارِ خیال کیا اور امجد اسلام امجد سے جڑے یادگار واقعات کو نوجوانوں کے ساتھ شئیر کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
،۔۔۔۔۔فینال