12 ویں عام انتخابات '' عوامی مینڈیٹ کا احترام کریں''

Feb 13, 2024

امتیاز اقدس گورایا
12 ویں عام انتخابات '' عوامی مینڈیٹ کا احترام کریں''
12 ویں عام انتخابات '' عوامی مینڈیٹ کا احترام کریں''


 بلا امتیاز… امتیاز اقدس گورایا
imtiazaqdas@gmail.com

 8 فروری 2024 کو 12 ویں عام انتخابات کامرحلہ تمام ہوا، مقام شکر ہے کہ پورے ملک میں پرامن ماحول میں5کروڑ 90لاکھ ووٹرز نے آزادانہ حق رائے دہی استعمال کیا۔ ووٹرز کی اکثریت نے پاکستان کی سب سے بڑی'' رائے شماری'' میں حصہ لے کر خود کو جمہوری ملک کے ذمہ داری شہری ہونے کا ثبوت دیا۔ سولہ برس یا اٹھارہ سال سے زائد عمر کے نوجوانوں نے زیادہ جوش وجذبے سے قومی اہمیت کے اس فریضہ میں حصہ لیا۔ گویا پاکستانی یوتھ کو اپنے وطن کے مستقبل کی فکرہے، اللہ کرے ایوان اقتدار میں آنے والے بھی نوجوان نسل کی اس محبت کا اس انداز سے جواب دیں۔پولنگ ڈے کے موقع پر پورا دن فون سروس کی بندش سے شہریوں کو ایک دوسرے سے رابطہ کرنے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ شہروں میں تو فون بندش سے پیدا شدہ مسائل کو مینج کر لیا مگر دور دراز اور پہاڑی علاقوں میں ووٹرز کو مواصلاتی رابطے کے بغیر مسائل کی کئی مسائل کی ندیاں عبورکرنا پڑیں
 الیکشن کمیشن کے طرف سے حتمی اعلان کے بعد حکومت سازی کا عمل تیز ہو جائے گا۔ منقسم مینڈیٹ کے باعث اتحادی حکومت قوم کی خدمت کیلئے سامنے آئے گی۔ 9 فروری کی رات ماڈل ٹاو¿ن میں اپنے محبان سے خطاب میں قائد مسلم لیگ ،سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے سب جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے مینڈیٹ کے احترام کی بات کی۔ اور خواجہ سعد رفیق صاحب نے اپنے مد مقابل امیدوار کے جیتنے پر مبارکباد دے کر ایک نئی روایت کی بنیاد رکھی ان کا کہنا درست تھا کہ جس نمائندے کو ووٹرز نے امیدواروں میں سے بہتر سمجھا اسے چنا اس کا احترام ہونا چاہیے۔ماضی میں ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو نظرانداز کرنے سے مسائل نے جنم لیا ا ہمیں ماضی کے تجربات سے سبق سیکھنا چاہیے۔ انتخابی مہم، انتخابات اور رزلٹ کے مراحل مکمل ہورہے ہیں اب سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کی ذمہ داری کا عمل شروع ہو چکا، ان کا فرض ہے کہ وہ باہمی مشاورت ' روداری اور یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت سازی کریں۔ پاکستان اور قوم اب کسی نئے سیاسی بحران کی متحمل نہیں ہوسکتی۔گزشتہ ایک ڈیڑھ برس سے ملک وقوم میں موجود ہیجانی کیفیت ختم کرانے کی ضرورت ہے۔یہ درست کہ جمہوری ممالک میں اختلاف رائے کو مسابقت اور صحت مندانہ مقابلے میں اختلاف سے فیصلے اور فیصلوں کے اجتماعی فائدے لیئے جاتے ہیں لیکن اختلافات کی آڑ میں دشمنی کے کانٹے بو دینا اور پھر ان کانٹوں کو لمبی مدت تک بوئے رکھنا انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں زیر بھر دیتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے وطن عزیز کی سیاست ایسے ہی پرخاش راستوں پر چلائی جارہی تھی۔ہم نے سیاسی اختلافات کے زہر آلود اثرات کو خاندانوں کی تقسیم کے لیے استعمال کیا، گھروں میں دوری کی دیواروں کھڑی کروائیں یہی نہیں خونیں رشتوں میں فاصلے پیدا کروائے'' بس اب بہت ہوگیا ''یہ نفرت آمیز سلسلہ ختم کریں۔ شہر' سماج' قوم اور ریاست کے بہترین مفاد کے پیش نظر خود کو بہترین پاکستانی اور سچا مسلمان ثابت کریں۔ تین دھائی پہلے تاریخ کے ورق پلٹیں۔ آپ کو تعلیم یافتہ افراد میں اختلاف کرنے اور مخالف رائے کوبرداشت کرنے کی ایسی نادر مثالیں ملیں گی جنہیں سن کر اور پڑھ کر دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ مجال ہے کہ کبھی ہمارے بزرگوں اور ''ہمارے بڑوں'' نے گفتگو اور بحث کے دوران عزت وتکریم میں کمی آنے دی ہو۔ افسوس اس بات کا ہے کہ والدین' اساتذہ کرام اور مستزاد علماءکرام ومشائخ عظام نے تربیت اور کردار سازی میں اپنے حصے کی شمع فروزاں کرنا چھوڑ دی۔ کبھی بچوں کے لیے ٹیچرز کی شخصیت آئیڈیل ہوا کرتی تھی۔ طالب علم ساری زندگی اساتذہ کرام کو فخریہ انداز میں کاپی کرتے تھے۔ سٹوڈنٹس کی روز مرہ زندگی اور معمولات سے تعلیم وتربیت کی مہکاریں ملا کرتی تھیں اب یہ روایات اور خوشبوئیں قصہ پارینہ بن گئیں۔ اساتذہ کرام کی تربیت میں عدم دلچسپی اور علماءکرام کی معاشرتی اور عوامی زندگی میں ''عدم موجودگی'' نے مسائل میں مسلسل اضافہ کیا۔ ہم ان مسائل کی وجہ تلاش کریں تو مسئلوں کی وجہ عدم برداشت' جھوٹ اور احساس برتری ملے گی۔
 شہری مہنگائی' بے روزگاری اور امن وامان سے پیدا شدہ مسائل کی چکی میں پس رہے ہیں، انہیں حالات کے رحم وکرم سے بچانے کے لیے طویل مدت کی منصوبہ بندی اور حکمت سازی کی ضرورت ہے اگر عوام کو بجلی' گیس ' پٹرول اور اشیائے ضروری کی قیمتوں میں ریلیف نہ ملا تو شہریوں میں مایوسی کے سلسلے مزید دراز ہو جائیں گے۔ عوامی خدمت کے چراغ آج ہی سے جلائیں لوگوں میں محبتیں تقسیم کریں سیاست دان اپنے اپنے ووٹرز کو بتائیں اور سمجھائیں کہ وہ اانتخابی سرگرمیوں اور انتخابی ماحول سے پیدا ہونے والی تلخیوں کو فراموش کر دیں۔ پاکستان ہم سب کا ہے ہم سب نے قومی کی خدمت کرنا ہے۔سیاست برائے خدمت سے ہی ہم بڑھ سکتے ہیں۔ انشا ءاللہ پاکستان خوب آگے جائے گا اور خوب ترقی کرے گا۔قو م آنے والی حکومت سے عرض گزار ہے کہ وہ اپنی پہلی ترجیح میں منہگائی' بے روزگاری کے خاتمے کے ساتھ تعلیم اور صحت کو اہمیت دے ،یہ دونوں شعبے قوم کا روشن چہرہ ہیں ہمیں پاکستان کے اس سافٹ امیج کو بہتر بلکہ مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے اور یہ مشن آج سے شروع ہونا چاہے۔ اللہ کریم ہمارا ناصر اور حامی ہو ' آمین

مزیدخبریں