”جمہوریت کا پوسٹ مارٹم“

      
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
یقین کریں آٹھ فروری کی شام سے دوستوں کی درجنوں کالیں اور میسجز میں جواب نہیں دے پا رہا تھا۔ اس دوران بے شمار دوست و احباب نے گپ شپ اور کافی کے لیے بلوایا مگر میں قصوروار نہ ہوتے ہوئے بھی خود کو مجرم سا محسوس کر رہا تھا مجھے شرم آرہی ہے کہ میں اپنے ملک کی اور غیر ملکی دوستوں کی محافل میں حالیہ الیکشن پر اپنی رائے کیا اور کیسے دوں۔ میں خود شرمندگی کے اس احساس کے ساتھ دوستوں کا سامنا کرنے سے قاصر رہا کہ میں کتنی گئی گزری قوم کا فرد ہوں۔یہ سوچ میرے اندر کیوں جاگزیں ہوئی؟ آٹھ فروری کو انتخابات ہوتے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے یقین دلایا گیا تھا کہ انتخابی نتائج کا اعلان چار گھنٹے کے اندر اندر کر دیا جائے گا لیکن پورے چار دن بعد 11 فروری کی رات کوانتخابی نتائج مکمل ہوئے۔انتخابی نتائج کے مطابق کوئی بھی پارٹی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔مسلم لیگ نون کے حصے میں 80 سیٹیں آئی ہیں، پیپلز پارٹی کو 55 سیٹیں ملی ہیں ،تحریک انصاف کی سیٹیں 107 کا اعلان کیا گیا پھر ان سیٹوں نے گھٹنا شروع کیا اور یہ کم ہوتی ہوتی 90 تک آگئیں جبکہ تحریک انصاف کا دعوی ہے کہ فارم 45 جو اس کے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کے ایجنٹوں کو دیے گئے ان کے مطابق انہوں نے 170 نشستیں حاصل کی ہیں۔انتخابی نتائج آنے کے ساتھ ہی ٹرینڈ کا اندازہ ہو گیا تھا۔اسی کے مطابق نو فروری کو نوائے وقت میں جو اداریہ لکھا گیا جس کی اشاعت 10 فروری کو ہوئی اس کے مطابق اس وقت صورتحال یہ تھی کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے قومی اسمبلی میں واحد بڑی جماعت کے طور پر سامنے آنے کے دعوے کے باوجود کوئی بھی سیاسی جماعت تنہا حکومت تشکیل دینے کی پوزیشن میں نہیں اور غالب امکان یہی ہے کہ حکومت سازی کیلئے یا تو مسلم لیگ (ن)‘ پیپلزپارٹی‘ ایم کیو ایم‘ جمعیت علماءاسلام اور دوسری چند نشستیں حاصل کرنیوالی ہم خیال جماعتوں کو پھر پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر متحد ہونا پڑے گا جبکہ فی الحال یہ تمام جماعتیں مل کر بھی قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتیں چنانچہ انہیں حکومت سازی کیلئے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہونیوالے آزاد ارکان کو اپنے ساتھ ملانے کی مجبوری لاحق ہوگی۔ اس کیلئے ہارس ٹریڈنگ کے بازار میں کتنا بھاﺅتاﺅ ہوگا‘ اس کا تصور کیا جائے تو یہ سسٹم کی ناکامی کی ہی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے سوشل میڈیا سیل کی جانب سے اپنی پارٹی قیادت کے ساتھ نظریاتی وابستگی کا بے تحاشہ پراپیگنڈہ کرکے سیاسی محاذآرائی جس انتہاءکو پہنچا دی گئی ہے، اسکے پیش نظر پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہونیوالا کوئی آزاد رکن اسمبلی شاید ہی اپنی سیاسی وفاداری تبدیل کرکے کسی دوسری پارٹی میں شامل ہونے کا متحمل ہو سکے جبکہ ان آزاد ارکان کیلئے خود کو پی ٹی آئی کا رکن ظاہر کرنا بھی قانونی طور پر ممکن نہیں کیونکہ پی ٹی آئی بطور جماعت انتخابی عمل میں شامل ہی نہیں تھی جس کے بارے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے پہلے ہی واضح کیا جا چکا ہے کہ کوئی آزاد رکن پی ٹی آئی میں شامل نہیں ہو سکتا کیونکہ پی ٹی آئی نے بطور جماعت انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا۔ 
فارم 45 اور 47 کے حوالے سے تحریک انصاف کے دعوو¿ں میں کتنی صداقت ہے؟ ایسے ہی فارم 45 سلمان اکرم راجہ کی طرف سے ہائی کورٹ میں پیش کیے گئے جس پر ہائی کورٹ نے حلقہ 120 کے نتائج کوروک دیا ہے یہاں سے آئی پی پی کے عون چودھری کی جیت کا اعلان کیا گیا تھا۔سلمان اکرم راجہ فارم 45 کے مطابق 80 ہزار کی لیڈ سے جیتنے کا دعوی کرتے ہیں۔خواجہ آصف اور میاں نواز شریف کے خلاف الیکشن لڑنے والے بھی فارم 45 اٹھائے پھرتے ہیں۔میاں نواز شریف کے لاہور کے حلقے سے جو پہلے فارم 47 جاری کیا گیا اس کے مطابق بھی میاں نوازشریف کی جیت دکھائی گئی تھی اس فارم میں جماعت اسلامی اور دیگر پارٹیوں کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد زیرو دکھائی گئی تھی۔یہ فارم میڈیا پر آیا اس پر ڈسکشن شروع ہوئی تو 12 گھنٹے کے بعد نیا درست کیا گیا فارم 47 جاری کر دیا گیا۔ یہ دونوں فارم انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔اس حلقے ہے 600 ووٹ مسترد ہوئے جب کہ ملتان جہاں سے شاہ محمود قریشی کی بیٹی مہر بانو انتخابات میں حصہ لے رہی تھیں ان کے حلقے سے 16 ہزار 500 سے زائد ووٹ مسترد ہوئے دوبارہ گنتی میں مسترد ہونے والے ووٹوں کی تعداد ساڑھے چار ہزار رہ گئی اس بنا پر ان کی فتح کا اعلان کر دیا گیا۔
نواز شریف این اے 15 مانسہرہ سے بھی الیکشن میں حصہ لے رہے تھے۔جاری کردہ نتائج مطابق وہاں سے میاں نواز شریف کو شکست ہوئی میاں صاحب نے یہاں سے نتیجہ کو چیلنج کیا اور اس پر انتخابی نتائج روک دیے گئے۔اسی حلقے میں مولانا فضل الرحمن کی پارٹی کے مفتی کفایت اللہ بھی حصہ لے رہے تھے ان کی طرف سے ایک ویڈیو گفتگو میں کہا گیا کہ اس حلقے سے میں بھی ہار گیا ہوں۔ میاں نواز شریف صاحب بھی ہار گئے ہیں۔میاں صاحب بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی شکست کو تسلیم کر لیں۔مصطفی نواز کھوکھر وہ بھی اسلام آباد سے الیکشن لڑ رہے تھے اس حلقے سے مسلم لیگ نون کے امیدوار کی جیت کا اعلان کیا گیا مصطفی نواز کھوکرنے بھی مفتی کفایت کی طرح کہا کہ میں بھی ہارا ہوں مسلم لیگ نون کا امیدوار بھی ہارا ہے۔ پی ٹی آئی کے امیدوار کو جو آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہا تھا اسے فتح ہوئی ہے۔کوئٹہ بلوچستان سے سابق سینیٹر اور وفاقی وزیر لشکری رئیسانی نے بھی کل ایک پریس کانفرنس میں اعتراف کیا ہے کہ وفاقی لیڈر شپ سے انہیں بھی آفر ملی آئی ہے کہ ہم آپ کے رزلٹ کو تبدیل کر کے آپ کے جیتنے کا بندوبست کر دیتے ہیں (لشکری رئیسانی ن لیگ کے نیشنل اسمبلی کے امیدوار ہیں ) جس پر لشکری رئیسانی صاحب نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا کہ وہ بھیک میں ایم این شپ تو کیا پرائم منسٹر شپ بھی نہیں لیں گے۔
کراچی سے پی ٹی آئی کے امیدوار فارم 45 کی بنیاد پر 18 سیٹوں سے جیت کے دعوے کر رہے ہیں۔جس طرح کی صورتحال سامنے آرہی ہے اس کو اندھیر نگری سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے 170 نشستیں جیتنے کے دعوو¿ں میں صداقت نہ ہو مگر جب وہ فارم 45 سامنے رکھ رہے ہیں تو کیسے ان کے دعوﺅں کو جھٹلایا جا سکتا ہے۔جو صورتحال بن چکی ہے اس میں سچائی سامنے لانے کے لیے شاید ایک بڑے کمیشن کی ضرورت پیش آئے۔
عمران خان کی طرف سے 2013 کے انتخابات کے بعد چار حلقے کھولنے کی بات کی گئی تھی اور اب تو چار کی بجائے بے شمار حلقے کھولنے پڑیں گے۔عمران خان تواتر کے ساتھ کہتے رہے کہ میری حکومت گرانے میں امریکہ سر فہرست تھا امریکہ کی طرف سے عمران خان کے ایسے دعوو¿ں یا الزامات کو جھٹلایا گیا عمران خان اور امریکی انتظامیہ میں ایک کشیدگی نظر آتی رہی۔ اب انتخابات کے بعد امریکہ کے رد عمل میں بھی کہا گیا ہے کہ جسے حقیقی عوامی مینڈیٹ ملا ہے اسی کو اقتدار میں آنے کا حق ہے برطانیہ یورپی یونین دولت مشترکہ کے وفود کی طرف سے بھی انتخابی نتائج کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس پر دفتر خارجہ کی طرف کہا گیا کہ کچھ ممالک کے بیانات منفی اور لہجے پر حیران ہیں۔بعید نہیں تھا کہ دفتر خارجہ کی طرف سے یہ کہہ دیا جاتا کہ یہ پاکستان کے معاملات کے میں مداخل مداخلت ہے جسے برداشت نہیں کر سکتے لیکن ایسا اس لیے نہیں کہا گیا کہ ان میں سے بہت سے ممالک پر پاکستان کی معیشت کا انحصار ہے۔اب نگران حکومت پر ہے کہ ایسے ممالک کو وہ کس طرح سے مطمئن کرتی ہے۔
الیکشن اور نتائج کے حوالے سے جو کچھ آج نظر آرہا ہے یہ سارا کچھ 90ءکی دہائی میں ہوتا تو کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی لیکن جدید دور میں بہت سی چیزوں کو پوشیدہ نہیں رکھ سکتے میڈیا کا دور ہے سوشل میڈیا خصوصی طور پر زیادہ یا کہہ لیں یا ضرورت سے زیادہ ہی فعال اور متحرک ہے۔تحریک انصاف بلے کے نشان کے بغیر الیکشن لڑ رہی تھی امیدواروں کی حیثیت آزاد کی تھی۔ تحریک انصاف کو اتنا زیادہ ووٹ کیوں پڑ گیا اس پر بڑے بڑے تجزیہ نگار حیران ہیں ۔بہت سے یہ کہتے ہیں کہ عمران خان کو جس طرح سے چار دن میں تین کیسز میں سزا دی گئی وہ ہمدردی کا ووٹ بھی ان کی طرف چلا گیا۔یہ صرف عام تجزیہ کار بات نہیں کرتے بلکہ بہت وہ بھی اس حوالے سے ہاں میں ہاں ملاتے ہیں جو مسلم لیگ نون کے بہت ہی قریب رہے ،ان میں عاصمہ شیرازی ہیں ،منصور علی خان ہیں، جاوید چوہدری اور کامران خان بھی شامل ہیں۔
میں درد مندی سے ان قوتوں سے گزارش کروں گاجو پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی منزل سے ہمکنار کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرتی رہی ہیں کہ وہ اس معاملے کو سمیٹنے کی کوشش کریں ،اگر عوامی رائے کو تسلیم نہ کیا گیا تو ملکی سیاسی اور معاشی حالات جو پہلے ہی مخدوش ہیں مزید ابتر ہو جائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن