تحریک انصاف کے امیدوار کا نام کیا ہے میں نے اس بار عمران خان کو ہی ووٹ دینا ہے۔ اس کی یہ بات اس لئے حیران کن لگی وہ خان صاحب کا ایک بڑا ناقد تھا اس کا موقف تھا کہ عمران خان بطور وزیر اعظم ناکام ثابت ہوئے ان کی حکومت نااہل تھی ،ان کیخلاف کیسز کو بھی وہ درست سمجھتا تھا تو پھر ووٹ عمران خان کو کیوں؟ تو اس کا جواب تھا خان مشکل میں ہے جیل میں ہے،اسے ووٹ دینا چاہے۔ ویسے تو ہم قوم ہی جذباتی ہیں لیکن تحریک انصاف میں تو لیڈر سے کارکن تک جذباتیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے یا پھر یوں کہیں بھردی گئی ہے، الیکشن سے پہلے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ نظر سے گزری ،عوام ظلم کا بدلہ ووٹ سے لیں گے اور عمران خان دس فروری کو وزرات عظمی کا حلف اٹھائیں گے،یقین جانیں اس پوسٹ کے نیچے ہزاروں لوگوں نے کمنٹس کررکھے تھے جن میں نوے فیصد نے انشااللہ لکھا تھا، سوچا ان صاحب کو سمجھایا جائے کہ ایسی خوش فہمیاں پیدا کرنا مناسب نہیں، اوّل تو عمران خان الیکشن نہیں لڑرہے وہ نااہل ہیں لڑ بھی نہیں سکتے اور اگر لڑ بھی رہے ہوتے تو الیکشن کے بعد وزیر اعظم بننے میں ایک مہینے تک کا وقت درکار ہوتا ہے پھر کمنٹس میں ایک اسی قسم کی رائے کا اظہار کرنے والے کیساتھ جو کچھ ہورہا تھا جیسے جیسے القابات سے اسے نوازا جارہا تھا اسے دیکھتے ہوئے اپنی وضاحت اپنے پاس ہی رکھ لی کیونکہ جذبات کے سامنے دلائل کام نہیں کرتے جذبات تو عقل کو ہی کھا جاتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے یہاں ہمدردی کا ایک بہت بڑا ووٹ بنک ہے 2018 میں نواز شریف اور انکی بیٹی مریم نواز جیل میں تھے اسٹیبلشمنٹ کھل کر عمران خان کو سپورٹ کررہی تھی مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے بھی مشکلات کا شکار تھے لیکن ان تمام تر نامسائد حالات کے باوجود نواز شریف کی جماعت نے سوا کروڑ سے زیادہ ووٹ لئے پنجاب میں سب سے بڑی جماعت بن گئی کچھ لوگوں کا یہ خیال تھا کہ یہ کارکردگی کا ووٹ ہے لیکن اس میں بڑا حصہ ہمدردی کا ووٹ تھا جو جیل جانے پر نواز شریف کو ملی، اس بار یہ موقع عمران خان کے ہاتھ میں آیا الیکشن سے ایک ہفتے قبل انہیں ایک ایک روز کے وقفے سے تین کیسز میں مجموعی طور پر اکتیس سال قید کی سنادی گئی مخالف جماعتوں کے کچھ رہنما بھی یہ پیشگوئی کر رہے تھے کہ ان سزاؤں کا عمران خان کو الیکشن میں فائدہ ہوگا جو یقینا ہوا بھی لیکن عمران خان نے یہ موقع ضائع کردیا اپنے کچھ جذباتی فیصلوں سے اور کچھ معاملات کا قبل از وقت ادراک نہ کرکے۔ عمران خان کے جیل جانے کی بعد ان کی پارٹی قیادت سیاستدانوں سے نکل کر قانون دانوں کے ہاتھوں میں آگئی۔
لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ یہ بڑے بڑے قانون دان بھی بہت سے چھوٹے چھوٹے قانونی پہلووں کا ادراک نہ کرسکے۔ وہ پلان اے ،بی ،سی کے اعلانات تو کرتے رہے لیکن شاید ان کی تیاری بالکل نہ کی، پہلی غلطی پارٹی انتخابات بروقت نہ کرانا یا پھر انہیں نظر انداز کرنا تھی جس سے پارٹی نشان ہی چھن گیا،اس کے بعد بقول ان کے پلان بی دوسری پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنا تھا لیکن یہاں بھی باریک قانونی نقطے کو مد نظر نہ رکھا گیا ، پارٹی وابستگی پی ٹی آئی کی ظاہر کی گئی جبکہ آخری وقت میں ٹکٹ کسی دوسری جماعت کا جمع کرانے کا منصوبہ بنایا گیا ،وہ جماعت خود کو اگر اس اتحاد سے لاتعلق نہ بھی کرتی تو ان کے ارکان کو اس پارٹی کا نشان نہ ملتا کیوںکہ ایک فرد ایک ساتھ دو جماعتوں کا رکن قانونی طور پر نہیں ہوسکتا ، پھر جسے پلان سی بتایا گیا تھا وہ فائدے مند ہوسکتا تھا یعنی کسی چھوٹی جماعت کیساتھ پارلیمان کے آندر اتحاد کرکے اس کا حصہ بن کے مخصوص نشستیں حاصل کرلی جائیں اس پر بھی ہوم ورک نہیں کیا گیا کیونکہ جس جماعت میں شامل ہوکر مخصوص نشستیں حاصل کی جاسکتی تھیں۔ اس نے مقررہ وقت کے اندر امیدواروں کی فہرست ہی جمع نہیں کرائی تو اب ایسی جماعت کے نام سے مخصوص نشستیں لینے میں بھی قانونی پیچیدگیاں آڑے آسکتی ہیں ، تو یوں اپنے امیدواروں کو آزاد حیثیت میں بڑی تعداد منتخب کروا کر بھی تحریک انصاف قومی اسمبلی کے اندر سب سے بڑی پارٹی نہ بن سکی اور مطلوبہ مقاصد حاصل نہ کرسکی ، عمران خان اور ان کی جماعت کیلئے یہ بہت سنہری موقع تھا کہ وہ ان حالات کو اپنے حق میں استعمال کرتے لیکن چھوٹے چھوٹے قانونی پہلووں کو نظر انداز کرکے انہوں نے یہ موقع ضائع کردیا ۔
اب پانچ سال بعد حالات کیا ہوں گے پلوں کے نیچے سے کتنا پانی بہہ چکا ہوگا کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ، اس سارے ماحول میں ہماری سیاست کا ایک اور پہلو بھی کھل کر سامنے آیا ،2018 سے قبل نواز شریف نے ‘‘مجھے کیوں نکالا’’ کا ہمدردی حاصل کرنے والا بیانیہ دیا پھر وہ سزا ملنے کے بعد بیٹی کیساتھ لندن سے واپس آئے ،گرفتاری دی اور جیل چلے گئے اس کا انہیں سیاسی فائدہ ہوا اس بار انہوں نے عمران خان کی ہمدردی کے ووٹ کا مقابلہ اپنی کارکردگی بتا کر کرنے کی کوشش کی دوسری جانب عمران خان کے حامیوں کے پاس کارکردگی میں اقوام متحدہ کی تقریر ،سیاسی شعور پیدا کیا ،وغیرہ ہی تھا لیکن ووٹرز نے کارکردگی کا مقابلہ کارکردگی سے نہیں بلکہ ہمدردی سے کیا اور ہمدردی جیت گئی۔
٭…٭…٭