’’نکلوپاکستان کی خاطر ‘‘    

بہت پُرسکون ماحول ۔ پُر امن فضا تھی ۔ سارا دن مختلف پولنگ سٹیشنز پر صورتحال کا بہت قریب سے جائزہ لیتی رہی۔ کہیں بھی ماحول کشیدہ نہیں دیکھا۔ ’’پولیس‘‘ کا رویہ ووٹرز کے ساتھ انتہائی نرمی ۔ تعاون کا رہا ۔ ہر جگہ خواتین و مرد ووٹرز خوشگوار موڈ میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ ہر جگہ دیکھا کہ لمبی لائنیں لگی ہیں مگر کسی بھی چہرے پر شکن یا بیزاری ۔ تھکاوٹ کا شائبہ تک نہ تھا۔’’ عید‘‘ کا سا سماں تھا ۔ بلاشبہ اپنے قومی فرض کی ادائیگی کا دن ’’عید ‘‘ ہی کہلاتا ہے۔ ووٹ ایک امانت ہے۔ لوگوں کو ہر جگہ تاکید کی کہ ’’دعا‘‘ کرتے جائیں کہ ’’اے اللہ ہم اپنی امانت کو آپ کے حوالے کر رہے ہیں ہماری امانتوں کی حفاظت فرمانا آمین ثمہ آمین‘‘۔
واقعی سچ ثابت ہوگیا سال بھر سے سُن رہے تھے اِس مرتبہ دیکھ لیا۔ جتنے بھی الیکشن دیکھے پوری فیملی کا ایک ہی ’’پولنگ سٹیشن‘‘ ہوتا تھا اِس مرتبہ کِسی گھر میں اگر ’’6افراد‘‘ ہیں تو تقریباً سب کا مختلف پولنگ سنٹر اور وہ بھی کافی دُور ۔ دُور ۔ لوگوں کو اِس مرتبہ کافی دقت پیش رہی ۔ لوگوں میں کافی غصہ پایا جارہا تھا۔ پہلی مرتبہ دیکھا کہ علی الصبح لوگوں کی کثیر تعداد اپنے ووٹ کاسٹ کرنے پہنچ چکی تھی ۔ خواتین اور نوجوانوں میں تو جذبہ قابل دید ہی تھا پر بزرگ بھی بیحد جوش میں تھے۔ ٹرن آوٹ توقعات سے بڑھ کر رہا ۔نکلو پاکستان کی خاطر ۔ واقعی لوگ نکلے اور قافلوں کی صورت دکھائی دئیے ۔ پاکستان کی خاطر نکلے ۔ ’’9  مئی ‘‘ کے بعد لکھا تھا (سب سے پہلے ) کہ پاکستان ہے تو ہم ہیں ۔ دھرتی کے بغیر ہم کچھ نہیں ۔ ہمارا وجود ارضی ٹکڑہ کے بغیر زیرو ہے۔ ہمارا لش پلش۔ ٹشن ۔ چمک ۔ رعب ۔ دھن دولت سب پاکستان کے مرہون منت ہے۔ اس لئے سنبھل جائیں تمام گروہ ۔ جماعتیں ۔ شخصیات اپنے اپنے حصہ کے کام نمٹانے پر توجہ مرکوز کریں اب بس کر دیں ’’نکلو اپنے ذاتی جھگڑوں سے پاکستان کی خاطر۔ اپنے بچوں کی خاطر۔
عوام نے بڑے تحمل ۔ جذبہ ۔ محبت سے اپنے حق کا استعمال کیا ۔ اب عوام کے حق کو اُسی جذبہ ۔محبت سے تسلیم کیا جانا چاہیے ۔ جب رزلٹ تیار تھے تو 19گھنٹے کے بعد کیوں اعلان کیا اور وہ بھی کافی بڑی لیڈکے ساتھ ؟؟ یقینا مجا ز اتھارٹی تقویت پکڑتے شکوک کو ضرور ختم کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کرئے گی۔ پہلا فرض یہی ہے کہ عوام کے انتخاب کو دل و جان سے تسلیم کیا جائے ۔ سیاسی جماعتیں ذِمہ داری کا ثبوت دیں ہوش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے حق نمائیندگی کو قبول کرتے ہوئے ’’پارلیمان‘‘ میں آئیں ۔ اکھٹے بیٹھ جائیں ۔ لمحہ موجود کے درپیش مسائل کو سامنے رکھیں ۔ واحد نکاتی ایجنڈہ بنائیں ۔ ترقی ملک کی ۔ قوم کی ۔ معیشت کی۔ درستگی ۔ اصلاح کی۔ یہی عصر حاضر کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اب وقت نہیں کہ الیکشن نتائج کو متنازفیہ بنایا جائے ۔ تازہ نتائج کو اگر شک میں ڈال دیا تو پھر مستقبل میں بھی یہی مشق جاری رہے گی۔ جتنا بھی وقت ملے اِس کو عوامی مسائل حال کرنے میں صرف کر دیں ۔ قوم اِس موڈ میں نہیں کہ لایعنی لڑائیوں میں اُن کی طاقت کو کوئی ضائع کر دے۔ 
ظاہر ہے جب کہیں جانا ہوتا ہے تو وہاں موجود لوگوں سے گپ شپ ضرور ہوتی ہے تو جب جانا ہو ووٹ ڈالنے تو لوگوں کا اشتیاق بڑھ جاتا ہے۔ وہ ہر ایک سے اُس کی ’’پسند‘‘ کا ضرور پوچھتے ہیں پر اِس مرتبہ اس معاملہ میں لوگوں کی خاموشی تھی۔ بہت راز داری برتی جارہی تھی۔ پولنگ والی گلی میں موجود شخص نے بتایا کہ وہ ’’بیرون ملک‘‘ سے خاص طور پر آئے ہیں ووٹ ڈالنے ۔ پر شکوہ کیا کہ ’’میری بیوی‘‘ کا ووٹ اِدھر ہے اور میری بیٹی اور میرا ووٹ ’’سیالکوٹ‘‘  میں ہے۔ بیوی کا ووٹ ڈلوا کر ’’سیالکوٹ‘‘ جائیں گے اور ووٹ کاسٹ کریں گے۔ کافی عرصہ سے اپنی قومی امانت کی اہمیت کا احساس لوگوں میں پختہ ہوتا محسوس کیا جارہا ہے بہت ہی خوش آئیندبات ہے قابل ستائش ہیں وہ لوگ جو اپنے فرائض بابت نہ صرف حساس ہیں بلکہ ایمانداری ۔ خلوص ۔ شفاف نیت پر کامل یکسو ہیں۔
اُسی گلی میں ’’ایک بچے‘‘ نے بتایا کہ وہ کل رات چھانگا مانگا گیا تھا صبح ووٹ کاسٹ کیا۔ واپس آکر فیملی کا ووٹ ڈلوا کر آیا ہے وہ اُسی حلقہ کا رہنے والا تھا جبکہ ’’ووٹ‘‘ ’’چھانگا‘‘ میں ۔ ایک گھر پر بہت بڑا ’’تحریک انصاف‘‘ کا جھنڈا لہرا رہا تھا پوچھا کہ کِس کا گھر ہے ؟ جواب ملا ۔ بادشاہ کا۔ واقعی بادشاہ ہی ایسا کام کیا کرتے ہیں ۔ جمہوریت کی اصل رُوح کو زندہ کر کے پوچھیں تو وہ یہی جواب دے گی کہ اصل بادشاہ گر عوام ہیں ماں باپ لاڈ پیار میں بچوں کے نام مالک ۔ حاکم۔ بادشاہ رکھ دیتے ہیں کیونکہ اُن کے نزدیک اُن کی اولاد ہی بادشاہ ہوتی ہے وہ اپنے بچوں کو ترقی ۔خوشحالی کی اُونچی منازل پر فائز دیکھنے کے متمنی ہوتے ہیں اِسی طرح جمہوریت عوام کی ماں مثل ہے عوامی فلاح ۔ سلامتی ۔ تحفظ کی خواہاں۔ ہم جمہوریت کے پرستار ہیں تو ہم کو اپنی ذات سے جمہوری سوچ ۔ جمہوری رویوں کا آغاز کرنا پڑے گا ۔ لفاظی سے خالی پیٹ نہیں بھرتا نہ تماشوں سے ذہنوں کو تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔ پہلے بھی اور اب بھی ۔ عوامی موڈ یہی ہے کہ بس لڑائی جھگڑا بند ۔ حق نمایندگی کا احترام کرو۔ ہمارے مسائل حل کرو ۔ کوئی 5سال رہے یا 20سال ۔ کوئی غرض نہیں بس ملکی سلامتی ۔ عوامی خوشحالی کے لیے آگے آؤ ۔ ہم نے اپنی امانت ’’اللہ رحمان ۔رحیم ۔کریم‘‘ کے حوالے کر دی ہے وہ ’’ذات پاک رب مہربان ‘‘ ہماری امانتوں کو کبھی ضائع نہیں ہونے دے گا۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن