معلق اسمبلی کیلئے فعال اور مخلوط حکومت ایک اہم مسئلہ

عترت جعفری 

ملک میں8 فروری کو ہونیوالے عام انتخابات  کے نتائج  بالعموم مکمل ہو چکے ہیں ، جن کے مطابق  قومی اسمبلی کے انتخابات میں آزاد امیدواروں نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ جس کے بعد پاکستان مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں، ایم  کیو ایم  نے 17 نشستیں حاصل کی جبکہ مسلم لیگ ق، جمعیت علماء  اسلام اور کچھ دیگر جماعتیں بھی قومی اسمبلی میں نمائندگی حاصل کر لی ہے۔ مسلم لیگ نون پنجاب کے اندر بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھری،کے پی کے اسمبلی میں آزاد امیدواروں نے میدان مارا ہے، بلوچستان کی صوبائی اسمبلی میں پیپلز پارٹی اور جمعیت العلماء  اسلام  نے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں جبکہ دیگر جماعتوں کی نمائندگی بھی  یہاںموجود ہے۔ سندھ اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی نے ایک مرتبہ پھر نمایاں کامیابی حاصل کر لی ہے، انتخابات کے روز اور اس کے نتائج کے اعلان کے بعد پاکستان میں جس سیاسی صورتحال کا سامنا ہے وہ کوئی نئی بات  نہیں ہے، وفاقی سطح پر ایک معلق اسمبلی وجود میں آئی ہے، اسمبلی میں آزاد ارکان کی تعداد دیگر جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ ہے تاہم ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ان آزادار کان میں پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد کتنی ہے۔ ملک کا سیاسی منظر نامہ وفاق میں مخلوط حکومت کے قیام کی جانب اشارہ کر رہا ہے جس کی کوشش شروع ہو چکی ہے جبکہ بلوچستان میں بھی سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کو ا کاموڈیٹ کرنا پڑے گا ، بدقسمتی کی بات ہے کہ انتخابات کے بعد ملک میں قومی اہم آہنگی کو کچھ زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی، انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد تنازعات پیدا ہوتے ہیں، اس بار بھی ایسا ہی ہوا، پولنگ ڈے کے روز انٹرنیٹ کو بند کرنے کا فیصلہ کوئی زیادہ سود مند ثابت نہیں ہوا ہے۔جس کی وجہ سے نا صرف انتخابات کے نتائج کے اعلان میں تاخیر ہوئی بلکہ اس سے ان عناصر کو تقویت ملی جو انتخابات کی ساکھ کو مجروح کرنے کے درپے تھے، ابھی پولنگ مکمل نہیں ہوئی تھی کہ دھاندلی کے الزامات لگنا شروع ہو گئے تھے، اور رہی سہی کسر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے نتائج کے اعلان میں غیر معمولی تاخیر نے  پوری کر دی،الیکشن ڈے اور اس کے بعد نتائج کے بر وقت اعلان کے حوالے سے اب تک کوئی حکمت عملی کامیاب نہیں ہو سکی ،کبھی آر ٹی ایس بیٹھ گیا اور اب کی بار بھی تاخیر سے نتائج ملنے کا مسئلہ بنا رہا۔بہرحال الیکشن کمیشن نے الیکشن کروائے جو آگے کی جانب ہی قدم سمجھا جائے گا  اور آگے چل کرزندہ قوم کے طور پر آئندہ اسمبلی کو ان مسائل کا حل تلاش کرنا ہو گا ۔
 الیکشن کمیشن نے مانسرہ سے میاں نواز شریف سمیت قومی اسمبلی کے 20 حلقوں کے  سرکاری  نوٹیفیکشن  کو روکا ہے، ان حلقوں کے حوالے سے شکایات ہیں جن کی تحقیق ہو گی ، جبکہ صوبائی اسمبلیوں کے 16 حلقوں کے نتائج کا نوٹیفکیشن ابھی جاری نہیں کیا جائے گا، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابی عذرداریوں کی سماعت شروع کر دی ہے اور صورتحال آئندہ دو سے چار روز میں واضح ہو جائے گی۔قومی اسمبلی کی 266 نشستوں میں سے 264 نشستوں کے غیرحتمی نتائج جاری کیے گئے ، ۔الیکشن کمیشن کے جاری کردہ اعداو شمار کے مطابق 264 نشستوں میں سے آزاد امیدوار 101 نشستیں لے کر سب سے آگے رہے ، مسلم لیگ (ن) 80 اور پیپلز پارٹی نے 54نشستیں حاصل کی ہیں۔متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے 17 نشستیں حاصل کیں، جمعیت علمائے اسلام (پاکستان) نے 4 جبکہ پاکستان مسلم لیگ نے 3 نشستیں جیتیں۔استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) نے 2 اور بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) نے بھی 2 نشستیں حاصل کیں۔مجلس وحدت المسلمین (ایم ڈبلیو ایم) پاکستان، پاکستان مسلم لیگ (ضیاء)، پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے ایک، ایک نشست حاصل کی ،لیکشن کمیشن کے مطابق سندھ اسمبلی کی 130 نشستوں میں سے 129 نشستوں کے غیرحتمی نتائج جاری کردئیے گئے ہیں جبکہ حلقہ پی ایس 18 گھوٹکی کا نتیجہ روک لیا گیا ہے جس پر 15 فروری کو دوبارہ انتخابات ہوں گے۔غیر حتمی نتائج کے مطابق سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی (پی پی پی) 84 نشستوں کے ساتھ صوبے کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔ایم کیو ایم پاکستان 28 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ اس وقت وفاق اور چاروں صوبوں میں نمائندہ حکومتوں کے قیام کا عمل شروع ہو چکا ہے، ظاہر ہے کہ سندھ اور کے پی کے کی صورتحال واضح ہے جہاں پر آزاد ارکان کی اکثریت ہے اور سندھ میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے اس لیے انہیں حکومت سازی میں کسی دوسری  جماعت کے تعاون کی ضرورت نہیں ہے، پنجاب میں مسلم لیگ نون کی اکثریت ہے وہ تنہا حکومت بنا سکتی ہے۔ وفاق او بلوچستان اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ حکومت بنانے میں مدد کرنا ہوگی، کیونکہ  ملک کی صورتحال کو بحیثیت مجموعی دیکھنا چاہیے، پنجاب سندھ بلوچستان اور اسلام آباد میں حکومت سازی کرنے والی جماعتوں کو ایک دوسرے کو اکاموڈیٹ کرنا ہوگا، پاکستان مسلم لیگ نون پاکستان پیپلز پارٹی جمعیت اور علمائے اسلام اور پاکستان مسلم لیگ کیو، ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتوں کے درمیان حکومت سازی کے لیے مشاورت کے ادوار منعقد ہو رہے ہیں، لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون کی قیادت کے درمیان دو ملاقاتیں ہو چکی ہیں اور جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس اسلام اباد میں ہوا ہے، اسی طرح جمعیت علمائے اسلام اور پاکستان مسلم لیگ کیو کی قیادت کے بھی مسلم لیگ نون کے ساتھ رابطے ہوئے ہیں وفاق اوربلوچستان میں مخلوط حکومتوں کی تشکیل کے لیے  اعلی  سیاسی قیادت کے درمیان رابطوں  میں تیزی آگئی ،  اور ایک  ایسا مجموعی سیاسی پیکج  لانے کی کوشش ہو رہی ہے جس میں مخلوط حکومتوں  میں شامل ہونے والی سیاسی جماعتوں کو بیک وقت ' کچھ دو  اور کچھ لو  'کی بنیاد پر راضی کیا جائے  ، اس صورتحال میں پی پی پی کو سندھ اور مسلم لیگ ن کو پنجاب میں اتحادی جماعتوں کو اکامودیٹ کرنا پڑے گا ،  سندھ میں  اگرچہ پیپلز پارٹی صوبائی حکومت تشکیل دے گی، اس نے ایم کے ایم کے ساتھ تعاون کے دروازے کو کھلا رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، کے پی کے میں آزاد امیدوار حکومت بنا سکتے ہیں۔    ،بلوچستان اسمبلی میں پیپلز پارٹی 11 ،گیارہ نشستوں کے ساتھ سر فہرست ہیں ، بلوچستان اسمبلی میں اپنی حکومت بنانے کے لیے کم از کم 26ارکان کی حمایت کی ضرورت ہوگی،جو مسلم لیگ نون اور یگر جماعتوں کے تعاون سے پوری ہو سکتی ہے۔پیپلز پارٹی  بلوچستان کی وزارت اعلیٰ کے منصب کے لئے امید وار ہے ،جس کیلئے مسلم لیگ نون پیپلز پارٹی جمعیت علماء اسلام، ایم کیو ایم، پاکستان مسلم لیگ ق کو ایک دوسرے کو جگہ بھی دینا ہوگی،  پی ٹی آئی کے حوالے سے صورتحال اس وقت واضح ہوگی جب ازاد جیتنے والے امیدوار اپنی سیاسی وابستگی کو ظاہر کریں گے، اس وقت پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں اس کوشش میں ہیں کہ آزاد امیدواروں کو اپنی پارٹی کے پلیٹ فارم پر لایا جائے،  پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعظم بنانے کے بارے میں سخت موقف رکھا ہوا ہے تاہم شواہد بتا رہے ہیں کہ اسے اپنی پوزیشن میں رد وبدل کرنا پڑے گا۔ کیونکہ پی ایم ایل  این قومی اسمبلی میں نمبر گیم میں اس کے کافی آگے جا چکی ہے ،تاہم وزارت اعظمی کے لئے کسی شخصیت کا انتخاب پی ایم ایل این کے لئے مشکل فیصلہ ہو گا ،قبل از وقت  نامزدگیاں مسئل کو جنم دیتی  ہیںاور اس بارے میں پی ایم ایل این اور پی پی پی ایک کشتی کو سوار ہیں،پی پی پی کو بدلتے حقائق کی وجہ ہی سے اپنی ای سی سی کا اجلاس بلانا پڑا ہے ،جس میں کوئی حیران کن فیصلہ ہو سکتا ہے کیونکہ پی پی پی کے اندر ایسا موقف بھی مو جود ہے کہ اپوزیشن میں جانا چاہئے ،ملک کو اس وقت بہت سے معاشی مسائل کا سامنا ہے ، پاکستان مسلم لیگ نون پاکستان پیپلز پارٹی جمعیت علماء اسلام اور دیگر جماعتیں مل کر مخلوط حکومت بنا بھی لیں تو ان مسائل سے نپٹنا کوئی آسان بات نہ ہوگی۔اسمبلی کا پہلااجلاس29فروری کو متوقع ہے ، جس میں ارکان حلف لیں گے اور سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب ہو گا ،اور بعدازاں قائد ایوان کا چناؤ کیا جائے گا ،مارچ کی ابتدا ء میں نمائندہ حکومت معرض وجود میں آ جائے گی جس کے کندھوں پر عوامی توقعات اورخواہشات کا ایک بوجھ ہو گا ، کیونکہ ہر سیاسی جماعت کا  اپنا اپنا منشور بھی ہے جو ایک مخلوط حکومت کے لئے بڑا چیلنج ہوگا۔ملک کو آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کا مرحلہ بھی درپیش ہے ،ملک کے قرضوں کی صورتحال دگرگوں ہے مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، ملک کے حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ٓائندہ حکومت نا صرف مستحکم ہو بلکہ وہ آپس کے تنازعات سے بھی بالاتر رہ کر ملک کی خدمت کرے۔ 

ای پیپر دی نیشن