قمر خان
آٹھ فروری کو الیکشن تو بخیر خوبی انجام پا گئے مگر اس کی دھول ابھی تک نہیں بیٹھی، شہر قائد میں کہیں جشن منایا جا رہا ہے تو کہیں احتجاج کیا جا رہا ہے احتجاج کے لیے فی الحال ہدف صوبائی الیکشن کمشنر کا دفتر ہے جبکہ جشن ایم کیو ایم پاکستان کی کال پر مختلف علاقوں میں منایا گیا جبکہ مرکزی جشن اتوار کو بانی متحدہ کے علاقے مشہور و معروف سیاسی مرکز عزیز آباد کے جناح گراؤنڈ میں منایا گیا۔
آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات سے چند روز قبل ایم کیو ایم لندن کی جانب سے بھی اچانک اپنے امیدوار میدان میں اتارنے کی خبر شہر قائد میں انتہائی حیرت اور عوامی سطح پر دلچسپی کا سبب بنی جس کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کی انتخابی سرگرمیوں میں اچانک تیزی آئی۔ جلسے جلوس اور ریلیاں بھی نکلیں تو مذہبی و دیگر جماعتوں سے اتحاد اور حمایت کے ڈول بھی ڈالے جانے لگے۔ گزشتہ تین دہائیوں سے ایک دوسرے کی مخالف ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی اختلافات بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہوئے ایک دوسرے کی حمایت کی اور ایک دوسرے کی آئندہ بھی دکھ سکھ میں ساتھ کھڑے ہونے کے وعدے وعید بھی کیے گئے۔ این پی سے اختلافات خاتمے کا شاہی سید اور مصطفی کمال کی جانب سے مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کے بعد شہریوں کے لیے یہ خبر بھی دلچسپی سے خالی نہ تھی ۔ کراچی کے مسائل کوٹہ سسٹم‘ پیپلز پارٹی کی کرپشن زدہ دور کی حوالے جلسے جلوسوں ریلیوں اور کارنر میٹنگز میں ایم کیو ایم کا زیر بحث لانا اس بات کی علامت تھی اگرچہ ایم کیو ایم پاکستان دوبارہ شہری عوام کے دلوں میں صرف انتخابات کی حد تک ہی سہی مگر جگہ بنانے میں کامیاب ضرور ہو گی۔ آپریشن زدہ ایم کیو ایم کو نسبتاً آزادی کے ساتھ انتخابی سرگرمیاں‘ میسر رہیں۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ایم کیو ایم کراچی سے حسب توقع قومی اسمبلی کی 15 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی جبکہ دو نشستیں اسے حیدرآباد سے ملیں اس طرح اسکی کل نشستوں کی تعداد 17 پر پہنچ گئی۔
الیکشن 2024 کے رزلٹ سے جہاں ایم کیو ایم پاکستان کو اپنی کھوئی ہوئی نشستیں واپس مل گئی اسی کے پس منظر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ ایم کیو ایم لندن کو بری طرح ایکسپوز کر دیا گیا۔ ایم کیو ایم لندن کی جانب سے ان کی کارکنان کی جانب سے یہ توقع کہ لندن سے ایک ٹیلی فون کال کے ذریعے انتخابات کا بائیکاٹ بھی عوام کرتی ہے تو اسی ٹیلی فون کال پر ایم کیو ایم لندن کے امیدواروں کو کامیابی بھی مل جائے گی مگر یہ سب خام خیالی ثابت ہوئیاور ان کی امیدوار ایم کیو ایم پاکستان کو حاصل ووٹوں کی نسبت 10 فیصد ووٹ بھی حاصل نہ کر سکے۔ یہ اور بات ہے کہ عوامی حلقوں میں ایم کیو ایم لندن کے حمایت یافتہ امیدواروں کے انتخابی نشانات زیر بحث ضرور رہے مگر ووٹ نہیں پڑ سکے۔
یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ ایم کیو ایم نے ضلع وسطی اور ضلع کورنگی سے مکمل کلین سویپ کر کے ماضی کی طرح یہ ثابت کیا کہ ڈسٹرکٹ سینٹرل اور کورنگی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے قلعے ہیں۔ گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم پاکستان کے بائیکاٹ نے اگرچہ ڈسٹرکٹ سینٹرل سے جماعت اسلامی کو کلین سویپ کا موقع ضرور دیا مگر ایم کیو ایم پاکستان کے میدان میں آتے ہی یہ علاقہ ماضی کی طرح ایک بار پھر ایم کیو ایم کے حصے میں آگیا۔کراچی کے آٹھ فروری کو ہونے والے الیکشن سے کئی دیگر حقائق بھی سامنے آئے ہیں۔ اعداد و شمار سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اگر 50 فیصد شہر ایم کیو ایم کو چاہتا ہے تو 25 فیصد جماعت اسلامی اور 25 فیصد پیپلز پارٹی کو بھی پسند کرتے ہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان نے مجموعی طور پر کراچی میں نو لاکھ 76 ہزار 420 ووٹ حاصل کیے ہیں ۔ پیپلزپارٹی نے چار لاکھ 91 ہزار 823 جبکہ جماعت اسلامی نے 4 لاکھ 50 ہزار 870 ووٹ حاصل کئے۔ دیگر آزاد جماعتوںکیلئے بھی دو لاکھ 88ہزار515 ووٹ کاسٹ ہوئے۔ اس میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار ودیگر آزاد امیدوار بھی ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق سب سے زیادہ ووٹ ایم کیو ایم کے جاوید حنیف نے حلقہ 233 کورنگی دو سے حاصل کیے جو کہ ایک لاکھ تین ہزار967 ہیں۔ دوسرے نمبر پر سربراہ ایم کیو ایم ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی رہے جنہوں نے حلقہ 248ضلع وسطی ٹو سے ایک لاکھ تین ہزار 82 ووٹ حاصل کئے۔ دوسری جانب ایم کیو ایم کے معروف پارلیمنٹیرین ڈاکٹر فاروق ستار صرف بیس ہزار 48 ووٹ حاصل کر کے بھی کامیاب قرار پائے ہیں۔ پیپلز پارٹی امیدوار عبدالحکیم بلوچ اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ خالد محمود علی کے ووٹوں میں محض389 ووٹوں کا فرق ہے لٹکتی تلواربن گیا ہے۔
کراچی میں جماعت اسلامی صوبائی اسمبلی کی دو سیٹیں نکالنے میں کامیاب ضرور ہوئی ہے مگر اسے قومی اسمبلی کی کوئی نشست نہیں مل سکی۔ادھر پیر کو ایک چونکا دینے والی ڈیویلپمنٹ سامنے آئی کہ جب جماعت اسلامی کراچی کے امیر اور نو منتخب رکن سندھ اسمبلی حافظ نعیم الرحمن نے اپنی سیٹ چھوڑنے کا اعلان کردیا کہ فارم 45کے مطابق رزلٹ کے تحت مجھے ملنے والی سیٹ ہمیں غلط دی گئی ہے لہذا خیرات کی یہ سیٹ نہیں لینا چاہتے۔ ان سب نتائج کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ نون کے حال ہی میں جوائن کرنے والے این اے 229 ملیر سے امیدوار قادر بخش کلمتی نے نسبتاً بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 21841 حاصل کیے تاہم اس حلقے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے جام عبدالکریم بازار 55732 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ہیں۔ حلقہ 241 سے پیپلزپارٹی کے مرزا اختیار بیگ نے 52456 ووٹ لے کر پیپلزپارٹی کو چھٹی سیٹ دلوا دی ہے۔ پیپلز پارٹی کو ساتویں سیٹ کیماڑی کے حلقہ 243 سے ملی جہاں منجھے ہوئے رہنما عبدالقادر پٹیل نے 60266 ووٹ کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔