ندیم بسرا
الیکشن بیس سو چوبیس کا مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے مگر یہ اس بار اپنے اندر ان گنت سوالات کو جنم دے گیا ہے۔قیاس آرائیاں ایک طرف رہ گئیں انتظامات اور ڈھولوں کی تھاپ اور پھولوں کے ہار بھی ایک طرف پڑے رہ گئے۔ الیکشن میں پہلا مرحلہ انتخابی مہم اور دوسرا ووٹ ڈالنا تھا جو بخیر وخوبی مکمل ہوا اب تیسرا اور فائنل مرحلہ حکومت سازی کا ہے جس کے لیے پی ٹی آئی ،ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں رسہ کشی جاری ہے۔وفاق کی حکومت کے لیے ن لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر اتحادیوںمیں گرینڈ ڈائیلاگ بھی شروع ہو چکے ہیں۔اس میں صوبوں کے معاملات بھی طے ہونے ہیں۔پنجاب جس کو مرکزی حیثیت حاصل ہے صوبہ پنجاب کا دارالحکومت لاہور اس وقت مرکز نگاہ بنا ہوا ہے۔آصف علی زرداری ،بلاول بھٹو ،خالد مقبول صدیقی ،فاروق ستار،سید مصطفی کمال بھی لاہور میں دیگر سیاسی قائدین کے ساتھ صلاح مشورہ کرتے نظر آتے ہیں۔جب بات صوبوں کی ہوگی تو پنجاب ہی سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔دوہزار اٹھارہ میں ن لیگ کو اکثریت حاصل تھی جہاں پی ٹی آئی کے سابق رہنما جہانگیر ترین نے آزاد امیدواروں کو ساتھ ملایا اور پی ٹی آئی آئی کی حکومت قائم کی اور سابق وزیر اعلی عثمان بزدار نے صوبے کے ساتھ جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے اس کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں صورت حال بیس سو اٹھارہ والی ہی ہے مگر ترازو کے پلڑے اب برابر کیسے ہونگے۔دو ہزار چوبیس کے انتخابات کے بعد اب پارٹی پوزیشن میں ن لیگ 136 امیدواروں کے ساتھ ٹاپ پر ہے۔پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی تعداد 113 ہے۔آزاد امیدواروں کی تعداد 22 ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے کامیاب امیدوار 10ہیں۔پاکستان مسلم لیگ 6،تحریک لبیک 1،استحکام پارٹی کا ایک کامیاب ممبر اور ایک مسلم لیگ ضیاء کا اسمبلی ممبر ہے۔پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر وفاق ،کے پی کے اور پنجاب میں حکومت بنانے پر زور دے رہے ہیں جبکہ مسلم لیگ ن پنجاب میں اپنی حکومت بنانے پر دیگر سیاسی جماعتوں کو قائل کررہی ہے۔مسلم لیگ کے ذرائع بتاتے ہیں کہ اگر ن لیگ شہباز شریف کو وزیراعظم بناتی ہے تو پنجاب میں مریم نواز یا حمزہ شہباز کے درمیان ہی کسی نام پر فیصلہ ہوگا۔جس میں مریم نواز کے وزیراعلی بننے کا زیادہ امکان ہے اگر شہباز شریف وزیراعظم نہیں بنے تو وہ صوبہ پنجاب کا نظم ونسق سنبھالیں گے۔