مغربی سروے بتاتے ہیں کہ 2030ء تک مسلمانوں کی تعداد 2 ارب 20 کروڑ تک جا پہنچے گی۔برطانیہ کا نمایاں مذہب اسلام ہو گا۔ یورپ میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہو کر یہ تعداد 52 ملین تک پہنچ گئی ہے۔ جرمنی حکومت نے پہلی بار اس حقیقت کا اعتراف کیا تھا کہ جرمنی میں مقامی آبادی کی گرتی ہوئی شرح پیدائش اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی شرح پیدائش کو روکنا ممکن نہیں، اگر صورتحال یہی رہی تو 2050ء تک جرمنی مسلم اکثریت کا ملک بن جائے گا۔ مغرب میں لوگ شادی اور بچوں کی ذمہ داری سے گریز کرتے ہیں جبکہ مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کینیڈا میں بھی اسلام تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔ امریکہ میں مسلمانوں کی تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ پی ای ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے مقابلے میں مسلمانوں کی آبادی میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان انڈونیشیا میں آباد ہیں جبکہ بیس سالوں میں یہ اعزاز پاکستان کو حاصل ہو جائے گا اور بھارت مسلم آبادی کے اعتبار سے تیسرا بڑا ملک بن جائے گا۔ اْمت مسلمہ کے لئے کافروں کی اس طرح کی رپورٹس حوصلہ افزا ہیں لیکن انتظار ہے اس روز کا جب اربوں کی اس آبادی میں کوئی سلطان محمود غزنوی بھی پیدا ہو سکے اور دہشت گردی کے پس پشت مغربی پالیسیوں کابھیانک چہرہ بے نقاب کر سکے۔ دنیا میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے کردار پر بھی سوال اُٹھ چکا ہے۔ مسلمان ذلت و پسپائی کا شکار ہیں۔ نوّے برس بعد دوبارہ بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں فتح ہوا۔نوّے سال پہلے اسی شہر میں ایک لاکھ مسلمانوں کو بے دردی کے ساتھ ذبح کر دیا گیا تھا۔ اس شہر میں آج بھی مسلمانوں کو ذبح کیا جا رہا ہے لیکن پاکستان میں مسلمان مسلمان کے ہاتھوں ذبح ہو رہے ہیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کے مسلمانوں پر مظالم کو درگزر کرتے ہوئے اس انداز بے نیازی سے معاف کر دیاکہ آج بھی مغربی دنیا سلطان کے کردار کی تعریف کرنے پر مجبور ہے۔ ناقابل یقین حد تک حسن سلوک روا رکھا۔ صلیبیوں اور عیسائیوں کو نہ صرف کشادہ دلی سے معاف کر دیا بلکہ پادریوں کو اجازت دے دی گئی کہ وہ جاتے ہوئے کلیسائوں کی دولت اپنے ساتھ لے جا سکیں۔ قیدیوں کو معمولی فدیہ کے عوض رہا کر دیا گیااور حفاظتی فوج کے ساتھ بحفاظت قلعہ تک پہنچایا۔ دس ہزار ایسے قیدی تھے جو اپنا معمولی فدیہ بھی ادا کرنے سے قاصر تھے، چالیس ہزار کے لگ بھگ قیدیوں کو بلا معاوضہ رہائی دے دی گئی۔ ان کا فدیہ سلطان نے اپنی جیب سے ادا کیا۔ عورتوں کی قید سے مردوں کو نہ صرف آزاد کر دیا بلکہ ان کے خرچ کا بندوبست کرکے انہیں بحفاظت عیسائی علاقوں تک پہنچایا گیا۔لیکن ان کے اپنے عیسائی بہن بھائیوں نے انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ مہاجروں نے اپنے عیسائی لیڈروں کیخلاف احتجاج کئے اور سلطان صلاح الدین ایوبی کے حْسنِ سلوک کی توصیف و تعریف بیان کی۔ تیسری صلیبی جنگ کو شکست کے بعد سلطان کا انتقال ہو گیا۔سلطان کے فتح کے بعد کئی سو سال بیت المقدس مسلمانوں کی تحویل میں رہا لیکن ترک سلطنت کے زوال کے ساتھ ہی بیت المقدس بھی مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ اس موقع پر فرانسیسی فوج کا جرنیل دمشق جا کر سلطان کی قبر پر کھڑے ہو کر اعلان کرتا ہے کہ’’اے صلاح الدین! ہم آ گئے ہیں، ہم کو روک کر دکھائیں‘‘۔۔۔ تاریخ میں آج بھی یہ جملہ محفوظ ہے! مسلمانوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہاہے مگر اسرائیلوں کے مظالم کو روکنے والا ہاتھ دوبارہ پیدا نہ ہو سکا بلکہ مسلمانوں کے حالات مزید ابتر ہو چکے ہیں۔ اخلاقیات کا دیوالیہ نکل رہا ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کا قول ہے کہ ’’اگر کسی قوم کو بغیر جنگ کے شکست دینی ہو تو اس کے نوجوانوں میں فحاشی پھیلا دو۔‘‘ گمراہی اور مذہبی انتہا پسندی نے مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے اور دونوں انتہائیں مسلمانوں کو تباہی اور بزدلی کی جانب لے جا رہی ہیں۔ سلطان صلاح الدین کی قبر کے سرہانے للکارنے والے صلیبی دشمن کی بازگشت آج بھی سنائی دے رہی ہے ’’ہم کو روک کر دکھائیں۔‘‘
مشرق وسطی کے اس طویل اور خونی تنازعے کو دہائیاں گزر چکی ہیں جس کا مستقبل قریب میں بھی کوئی مستقل حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
سرزمین فلسطین کی تاریخ کی طرف دیکھیں تو یہ ہی بہت مقدس اور قدیم سرزمین ہے یہ انبیا کا مسکن رہا یہاں پر بہت سے معجزات ہوئے۔قبلہ اوّل کے مکینوں پر ظلم و بربریت امت مسلمہ کے لئے عبرتناک چیلنج بن چکا ہے۔