گزرے پیر کی صبح اٹھ کر یہ کالم لکھا تھا اور آج ایک ہفتے کے وقفے کے بعد ایک بار پھر قلم اٹھایا ہے۔ آپ سے وقفے کی درخواست کرتے ہوئے گزشتہ کالم کے اختتام پر اس خیال کا اظہار کیا تھا:’’نسبتاََ کم ٹرن آئوٹ کے باوجود مسلم لیگ (نون) 1997ء کی طرح ہیوی مینڈیٹ لیتی نظر نہیں آرہی۔ مختلف حلقوں میں جاکر بہت لگن اور محنت سے عوام کی رائے جاننے میں مصروف کئی رپورٹروں سے جو رابطے ہوئے ہیں یہ سوچنے کو مائل کررہے ہیں کہ مسلم لیگ (نون) کو اپنے تئیں سادہ اکثریت کے حصول میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘
مذکورہ بالا الفاظ دہرانے کا مقصد خود کو عقل کل ثابت کرنا نہیں۔ عرض فقط یہ گزارنی ہے کہ 8فروری کی شام سے جو نتائج نمودار ہونا شروع ہوئے انہوں نے مجھے ہرگز حیران نہیں کیا۔ ہمارے تبصرہ نگاروں کی اکثریت اس حقیقت کا ادراک نہیں کرپائی ہے کہ وطن عزیز میں تحریک انصاف کی ’’انتخابی مہم‘‘ کا آغاز درحقیقت اپریل 2022ء ہی سے شروع ہوگیا تھا۔اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کا ذمہ دار انہوں نے ہما رے ہاں کی اپوزیشن جماعتوں کو نہیں بلکہ دنیا کی واحد سپرطاقت کہلواتے امریکہ کو ٹھہرایا تھا۔ بات یہاں ختم نہ ہوئی۔ امریکہ کو اپنا ’’ویری‘‘ قرار دینے کے بعد انہوں نے ریاست کے طاقت ور ترین ادارے کے چند کرتا دھرتا افراد کو بھی تقریباََ روزانہ کی بنیاد پر عوام سے رابطہ کرتے ہوئے ’’میر جعفروصادق‘‘ پکارا۔ قمر جاوید باجوہ مگر اپنی ذات اور ادارے کی حرمت کے بارے ہرگزفکرمند نہ ہوئے۔ نہایت ڈھٹائی سے بلکہ وکٹ کے دونوں جانب کھیلتے ہوئے اس تمنا میں مبتلا رہے کہ انہیں اپنے عہدے پر ٹکے رہنے کو مزید وقت مل جائے۔ بالآخر انہیں رخصت ہونا پڑا۔ دریں اثناء عمران خان کا جارحانہ انداز میں روایتی اور سوشل میڈیا کے بھرپور استعمال کی بدولت پھیلایا بیانیہ ملک بھر کے لاکھوں افراد کے دلوں میں مقبول ہوچکا تھا۔ عمران مخالف سیاستدان ’’قومی حمیت‘‘ کے نام پر تشکیل دئے بیانیے کا توڑ ڈھونڈنے میں شرمناک حد تک ناکام رہے۔ اس ضمن میں نواز شریف کی جماعت کا رویہ بھی خودکش رحجان کی نصابی مثال تھا۔
’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی دہائی مچانے کے بعد نواز شریف گرفتار ہوئے تو چند مہینے جیل میں گزارنے کے بعد ’’علاج کی خاطر‘‘ لندن روانہ ہوگئے۔ان کی عدم موجودگی میں شہباز شریف نے تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجانے کے بعد بھان متی کا کنبہ دکھتی جس حکومت کی قیادت سنبھالی اس نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے نام پر عوام کا کچومر نکال دیا۔خوفناک مہنگائی کے عذاب کا شکار ہوئے عوام کو عمران مخالف قوتیں یہ سمجھانے میں قطعاََ ناکام رہیں کہ روس-یوکرین جنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے علاوہ پاکستان میں مہنگائی کے سیلاب کی ایک اہم وجہ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے آئی ایم ایف سے ہوا وہ معاہدہ بھی ہے جو عمران حکومت نے 2019ء کے برس طے کیا تھا۔بعدازاں اس معاہدے کو ’’میٹھا ہپ ہپ‘‘ کرلینے کے بعد ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔
پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کی خاطر شہباز حکومت اپنے سولہ ماہ کے دور اقتدار میں میرے اور آپ کے گھروں میں بجلی اور گیس کے بلوں میں ناقابل برداشت حد تک اضافے کرتی رہی۔ایک لمحے کو بھی لیکن وہ ایسا کوئی قدم اٹھاتی دکھائی نہیں دی جو ہماری اشرا فیہ اور مالدار طبقات کوبھی تھوڑی قربانی دینے کو مجبور کرتا نظر آئے۔اس کے علاوہ تمام تر توجہ عمران خان کی سیاسی کے بجائے ذاتی زندگی کو داغدار ثابت کرنے پر مبذول کردی گئی۔عمران خان کو سیاست سے ریاستی طاقت کے بھرپور استعمال سے ’’مائنس‘‘ کرنے کی کوششوں کے باوجود 8فروری کے انتخابات سے قبل تحریک انصاف کا ا نتخابی نشان ’’چھین‘‘ لیا گیا۔ یہ سب ہوجانے کے بعد نیوٹن کے دریافت کردہ قانون فطرت کے مطابق ’’ریاستی‘‘ عمل کے مساوی (عوامی) ردعمل 8فروری کی شام لوگوں کے روبرو آنا ہی تھا۔
ہفتے کے پانچ دن صبح اٹھتے ہی یہ کالم لکھنے کی عادت سے ایک ہفتے تک پھیلے گریز نے میرے ذہن کو بے تحاشہ نئے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کو اکسایا ہے۔جو موضوعات ذہن میں آئے ہیں ان کے بارے میں ’’غور سخن‘‘ کی مشق اس کالم میں آپ کے ساتھ مل کر جاری رکھوں گا۔ فی الوقت اس بحث کو بھلادیتے ہیں کہ 8فروری کے انتخابات کس حد تک ’’منصفانہ‘‘ یا ’’غیر منصفانہ‘‘ تھے۔ ناک کو سیدھی طرح پکڑیں یا ہاتھ گھماکر۔ایک بات بہت واضح ہے اور وہ یہ کہ تحریک انصاف سمیت 8فروری کے روز کسی بھی سیاسی جماعت کو عوام نے واضح اکثریت فراہم نہیں کی ہے۔تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ’’آزاد‘‘ امیدواروں کی کثیر تعداد کو ملے ووٹ یقینا حیران کن ہی نہیں بلکہ قابل ستائش بھی ہیں۔ عاشقان عمران نے گھروں سے باہر نکل کر تحریک انصاف کے بے تحاشہ حلقوں میں کھڑا کئے ’’کھمبوں‘‘ کو بھی والہانہ انداز میں ووٹ کی طاقت سے نوازا ہے۔ ریاستی سوچ کو للکارتی یہ دلیرانہ لہر بھی لیکن تحریک انصاف کو ’’آزاد‘‘ حیثیت میں وہ مقدار فراہم نہیں کر پائی جو خیبرپختونخواہ کے علاوہ قومی اور تین دیگر صوبائی اسمبلیوں میں اسے سادہ اکثریت کے ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومتیں تشکیل دینے کے قابل بنائے۔
سیاسی اعتبارسے میری ناقص رائے میں تحریک انصاف کی اولین ترجیح اب یہ ہونا چاہیے کہ وہ جلد از جلد اسلام آباد کے کسی مقام پر اپنی حمایت سے 8فروری کی شام کامیاب ہوئے ’’آزاد‘‘ اراکین کو اکٹھا ہوا دکھائے۔ان کی تعداد گنوانے کے بعد تحریک انصاف کی بطور واحد اکثریتی جماعت نہ سہی تو ’’واحد اکثریتی گروپ‘‘ والی شناخت اجاگر ہوجائے گی۔ مطلوبہ شناخت اجاگر کرلینے کے بعد تحریک انصاف کے رہ نمائوں کو دیگر سیاسی جما عتوں سے مذاکرات کا آغاز کرنا ہوگا۔ ’’واحد اکثریتی گروپ‘‘ کی جانب سے اٹھائی ’’فراخ دل پیش قدمی‘‘ کا عمران مخالف جما عتیں خیرمقدم کرنے کو مجبور ہوں گی۔ اس کی بدولت بالآخر ایک مخلوط مگر طاقت ور حکومت کا قیام یقینا ممکن ہوگا جو وطن عزیز کو سنگین سے سنگین تر ہوتے معاشی اور سیاسی بحران سے نبردآزما ہونے کے قابل بناسکے۔اپنے ساتھ ہوئی حقیقی اور مبینہ ’’زیادتیوں‘‘ کو کھلے دل سے بھلانے کے بعد دیگر سیاسی جماعتوں سے تعاون کی درخواست اور اس کے حصول کی مخلصانہ کوششیں ہی تحریک انصاف کو 8فروری کی شام نمودار ہوئے نتائج کو مزید بارآور بنانے کے قابل بناسکتی ہیں۔ ’’حتمی فاتح‘‘ ہونے کے گماں نے اگر تحریک نصاف کو دوراندیشی اور بردباری دکھانے سے باز رکھا تو پاکستان میں 1977ء کا برس بھی لوٹ سکتا ہے۔ اس برس کے جولائی میں کیا ہوا تھا؟ اسے جاننے کے لئے ’’انکل گوگل‘‘ سے رابطہ کیجئے۔
تحریک انصاف کا ’’حتمی فاتح‘‘ ہونے کا گمان
Feb 13, 2024