لاہور؍ اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ خبر نگار+ نمائند گان+ وقائع نگار) لاہور ہائیکورٹ نے مریم نواز، عطاء تارڑ، خواجہ آصف، عون چودھری، علیم خان سمیت 18 حلقوں کے انتخابی نتائج کے خلاف درخواستیں خارج کر دیں۔ شاہد عثمان، ملک شاکر بشیر اعوان، عرفان شفیع کھوکھر، ملک خالد کھوکھر، فیصل اکرام، چودھری محمد منشاء، رانا عبدالستار اور پی پی 170 سے انتخابی نتائج چیلنج کئے گئے تھے۔ جسٹس علی باقر نجفی نے محفوظ فیصلے سنائے۔ لاہور ہائیکورٹ نے درخواست گزاروں کو الیکشن کمشن سے رجوع کرنے کی ہدایت کر دی۔ نواز شریف، شہباز شریف اور حمزہ شہباز کیخلاف درخواستیں سماعت کیلئے مقرر نہ ہوسکیں۔ ادھر سندھ ہائیکورٹ نے انتخابی نتائج چیلنج کرنے کی درخواستوں پر شکایت دور کئے بغیر کسی بھی حلقے کا نوٹیفیکشن جاری نہ کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس عقیل احمد عباسی کی سربراہی میں الیکشن 2024ء کے نتائج کو چیلنج کرنے کے حوالے سے 25 سے زائد درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہاں بہت ساری درخواستیں ہیں سب کے معاملات الگ الگ ہیں۔ قانون کے مطابق چلیں، الیکشن میں ری پولنگ بھی ممکن ہے۔ اگر فارم 47 کے حوالے سے شکایات ہیں تو پھر الیکشن کمشن ان شکایات کو دیکھے گا۔ اللہ کا شکر ہے الیکشن پرامن طریقے سے ہو چکے ہیں اور کوئی بڑا دہشتگردی کا واقعہ رونما نہیں ہوا۔ ابھی ہم الیکشن کے اس پروسیس کو ڈسٹرب نہیں کر سکتے۔ قانون کے مطابق سب کو چلنے دیں۔ چیف جسٹس عقیل احمد عباسی نے ریمارکس میں کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017 ء میں تمام شکایتوں کے ازالے کیلئے طریقہ کار موجود ہے جس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ پورا کا پورا الیکشن دوبارہ کروایا جا سکتا ہے جس میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں ہے۔ پی پی 133 سے مسلم لیگ ن کے امیدوار رانا محمد ارشد کی درخواست پر الیکشن کمشن نے آر او کو نتائج جاری کرنے سے روک دیا۔ الیکشن کمشن نے آزاد امیدوار خالد نواز سدھرائچ اور چودھری سعید احمد سعیدی کی درخواستوں پر پر این اے 106 اور پی پی 121 کا حتمی نتیجہ جاری کرنے سے روک دیا۔ پشاور ہائیکورٹ نے انتخابی نتائج میں مبینہ تبدیلی کے خلاف درخواستوں پر الیکشن کمشن سے جواب طلب کر لیا۔ جسٹس ارشد نے ریمارکس دیئے کہ رولز کے مطابق آپ کے کیس میں دوبارہ گنتی نہیں ہو سکتی۔ فارم 49 جاری ہو چکا ہے پھر تو ہم اس کو معطل نہیں کر سکتے۔ عدالت نے کہا کہ ہم الیکشن کمشن کو یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ گنتی دوبارہ کریں۔ سپریم کورٹ نے ان کیسز میں بڑا چھوٹا مارجن رکھا ہوا ہے۔ ان مقدمات میں ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار بہت کم ہے۔ ممبر الیکشن کمیشن سندھ نثار درانی اور ممبر الیکشن کمیشن بلوچستان شاہ محمد جتوئی پر مشتمل بینچ نے انتخابی نتائج میں شکایات پر درخواستوں کی سماعت کی۔ ممبر الیکشن کمیشن سندھ نثار درانی نے کہا جو ہار گیا وہ جشن منا رہا ہے اور جو جیت گیا وہ دھاندلی کے الزامات لگا رہا ہے، ایسا رویہ کب تک چلے گا؟ ہار اور جیت جمہوریت کا حسن ہے۔ سپیشل سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ آر اوز زیادہ تر حلقوں میں حتمی نتائج جاری کر چکے، اس موقع پر نتائج روکنے سے اگلے مراحل میں تاخیر ہو گی۔ الیکشن کمیشن نے پی پی 33گجرات، پی پی 126 جھنگ اور پی پی 128 جھنگ کا حتمی نتیجہ جاری کرنے سے بھی روک دیا۔