کچھ ’امن کی خوں آشام آشا‘ پر

’دی ٹائمز آف انڈیا‘ کے ’سٹرٹیجک پارٹنرز‘ نے ایک نئے نویلے ’امن‘ کی نئی نویلی ’آشا‘ دکھائی پڑتے ہی ’کبڈی کبڈی‘ کی گردان شروع ہی کی تھی کہ اس کے تمام کالم کاروں نے کینچلیاں اتار کر اور ’جیو! آگ لگا کر جیو!‘ کا نعرہ سر کرکے ساری کینچلیاں بیک وقت ’نذر آتش‘ کر ڈالیں اور ’بون فائر‘ کا ہنگامہ برپا کر دیا! لہٰذا جناب نواز شریف تک نوید پہنچے کہ ان کی مہربانیوں اور ریشہ دوانیوں کے طفیل بیش از بیش سیراب ہو لینے کے بعد ان کے خرمن کے خوشہ چینوں نے اپنے بارے میں یہ ’تاثر‘ زائل کرنے کے کام کا آغاز کر دیا ہے کہ میاں نواز شریف کبھی ان کے ’آئیڈیل‘ رہ چکے ہیں!یہ ’اعلان جنگ‘ کرتے ہی انہیں ایک بہتر ’آئیڈیل‘ کے پیچھے ’پناہ‘ لے لینے کی سوجھی لہٰذا کہتے پھرنے لگے کہ ان کا ’آئیڈیل‘ تو وہ ہیں، جنہیں جناب نواز شریف بھی اپنا ’آئیڈیل‘ سمجھتے ہیں کیوں کہ ان کے آئیڈیل ’قائداعظمؒ‘ ہیں! اپنی اس غیر معمولی مہربانی کے عوض انہوں نے اہل پاکستان کی جانب سے اظہار سپاس پر تو زور نہیں دیا، البتہ ایوان صدر کی جانب ایک آس بھری پیاس سے لب ریز نگاہ ضرور اٹھائی اور جناب بابر اعوان کی طرح کا کوئی ’ستارہ امتیاز‘ جیسا اعزاز حاصل ہو جانے کی توقع ضرور لگائی! کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ’ستارہ امتیاز‘ کے ساتھ ’دو پستول بلالائسنس‘ رکھنے کی اجازت کے سوا کچھ اور نہیں مل پاتا! رہ گیا ’اعزاز‘ تو وہ پہلے ہی ان کی جیب میں ہے! رہ گئے ’بلالائسنس پستول‘ تو انہیں اپنی ’زبان‘ پر ’کلاشنکوف‘ سے زیادہ ’کارگر‘ ہونے کا گمان ہے! ان کی زبان کی زد پر آنے والا آج تک نہیں بچا! دین و دل، جان و جسد، جیب گریباں تج کے بھی لوگ خوش خوش گھر کو لوٹ جاتے ہیں! کہ چلو سستے چھوٹے!
’بڑی دکان‘ کتنے پھیکے پکوان پیش کر رہی ہے اس کا اندازہ کراچی کے حالیہ واقعات پر ان کی ’جھلمل سکرین‘ کی گرتی ہوئی ساکھ سے ظاہر ہے! ’یار اے لوک کیہ کرنا چاہندے نیں؟‘ لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں اور چینل بدل دیتے ہیں!ابھی ’امن کی آشا‘ کا پہلا مرحلہ سر ہوا ہے، ابھی ’دی ٹائمز آف انڈیا‘ اپنے ’پاکستانی سٹرٹیجک پارٹنرز‘ کے کالم کاروں کی تحریروں کے انگریزی ترجمے کی اشاعت کے ’عوضانوں‘ کے نام پر ان کی رال مزید ٹپکائیں گے اور یہ کالم کار ’بابا‘ اور ’بابو‘ کا فرق زبان و بیان کی حد تک مٹانے کے کام سے لگ جائیں گے! کیونکہ یہ ’کالم کار‘ کبھی ’خواب اور خواہش‘ کے پیچھے نہیں گئے، وہ صرف ’ذاتی مقاصد‘ کے تعاقب میں نکلتے ہیں! اور اس ’گرم تعاقب‘ کے دوران قومی سرحدوں سے ذاتی حدوں تک ہر شے عبور کر جاتے ہیں! ان حضرات نے ہمیشہ دوست پچھاڑے اور اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے! حتیٰ کہ یہ ’جھنڈے‘ بھی اپنے مقتول دوست کے دشمنوں سے ادھار لئے! کہ ان کی اپنی کوئی ’پہچان‘ تھی ہی نہیں! اور نہ ہی آئندہ بن پائے گی! کیونکہ وہ صرف بے وقوف بنانے کے ماہر ہیں! اب تو ان کے قریبی دوست بھی چلا اٹھے ہیں! ’یار ایہہ ساہنوں کیہ سمجھدا اے؟ یہ سطور ان الفاظ کا بوجھ نہیں اٹھا سکتیں! ہمارا عقیدہ ہے کہ ’حرف کا ظرف‘ ’سچ‘ اور صرف ’سچ‘ محفوظ کر لینے کے لئے وضع کیا گیا! اور ’سچ‘ صرف ’اہل توکل‘ کا مقدر کیا گیا، حتیٰ کہ اہل توقع، کے لئے اس طرف نظر بھر کر دیکھنے کی اہلیت تک سلب کرکے انہیں ’اہل دنیا‘ میں دھکیل دیا گیا اور وہ پانی میں پتاشے کی طرح گم کر دئیے گئے! سچ تو یہ ہے کہ ہم کسی بزرگ کی طرف دیکھ کر ہی اندازہ لگا لیا کرتے تھے کہ اسے حضرت قائداعظمؒ کا چہرہ دیکھنے کی سعادت ملی ہے یا نہیں؟ ہم نے حضرت قائداعظمؒ کے دیدار کا شرف حاصل کرنے والوں کی زندگی میں دو خواص مشترک پائے، ’انتہائی صاف ستھرا لباس‘ اور ’وقت کی انتہائی پابندی‘ ہم جناب نواز شریف کے لئے محض کیوں اچھے جذبات رکھتے ہیں کہ وہ موجودہ باقیات میں واحد سیاستدان ہیں، جنہیں حقیقی معنوں میں ’قائداعظمؒ کے پاکستان‘ کی محبت میں مبتلا سیاستکار کہا جا سکتا ہے! اور وہ اسی نفسیات کے حامل افراد میں سے ہیں، جنہیں دوسرے ملکوں کی سڑکیں دیکھ کر اپنے ملک میں ویسی ہی ’سڑکیں‘ بنانے کا جنون ہو جاتا ہے، ان کے ہسپتال دیکھ کر اپنے ملک میں ویسے ہی ہسپتال بنانے کا خیال آتا ہے! ان کے ائرپورٹ دیکھ کر ویسے ہی ائرپورٹ بنانے کا عزم کرتے ہیں ان کے مشاہدے میں آنے والی ہر اچھی چیز اپنے ملک میں پیدا کرنے کی خواہش اپنا اسیر کر لیتی ہے! وہ ہمیں یوں بھی اچھے لگتے ہیں کہ وہ خواب دیکھتے ہیں اور تعبیریں تلاش کرتے ہیں!

ای پیپر دی نیشن