تجاہل ِعارفانہ و تغافلِ رندانہ کا رویہ ہمیں لے ڈوبے گا

Jan 13, 2013

فضل حسین اعوان

سری لنکا میں باغی25 سال تک اسلحہ لہراتے، امن کی دھول اڑاتے اور معصوم افراد کا خون بہاتے رہے۔تامل ٹائیگرز نے23جولائی 1987ءکو ہتھیار اٹھائے ۔ حکومت میں جو آیا، بغاوت کرنے والوں کے حوالے سے پالیسی یکساں رہی۔ ان کی سرکوبی کے لئے جہاں سری لنکن عوام حکومت کے شانہ بشانہ رہے وہیں حکومت نے دوسرے ممالک سے تعاون بھی حاصل کیا۔ ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے جو آج سری لنکا کے مقابلے میں کہیں زیادہ شورش کا شکار ہے۔ بالآخر 2009ءمیں باغی ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے۔ جہاں ملک کے ہر کونے میں بارود کی بو پھیلی ہوئی تھی ،آج وہاں امن کے پھولوں کی خوشبو مہک رہی ہے۔ ۔۔
اٹلی مافیاز کی لپیٹ میں آیا۔ منشیات، اسلحہ، بلیک میلنگ، بدمعاشی نے عروج حاصل کر لیا۔ انڈر ورلڈ کی سرگرمیوں سے حکومتی امور بری طرح متاثر ہوئے ۔ ڈان، ڈرون بن کر جہاں چاہتے تباہی مچاتے۔ ان پر ہاتھ ڈالنا ممکن نہیں رہا تھا۔ حکومت ایک عزم لے کر اٹھی عوام نے ساتھ دیا تو شرپسندوں کا صفایا کر دیا گیا۔ مجرموں کا ٹرائل جیلوں کے اندر ہوتا اور جج نقاب اوڑھ کر مقدمات کی سماعت کرکے اور سزائیں دیتے تھے۔
آج ہمارے حالات بدامنی کی بدترین سطح پر پہنچے ہوئے ہیں۔ کوئی بھی نہیں کہیںبھی محفوظ نہیں۔ ججوں، جرنیلوں اور جرنلسٹس کو مافوق الفطرت سمجھا جاتا ہے۔ کیا یہ محفوظ ہیں؟ اگر جرنیل چھاﺅنیوں اور قلعہ بند ،جی ایچ کیو میں بھی محفوظ نہیں تو کوئی بھی پاکستانی کہیں بھی محفوظ نہیں۔ جج قتل ہوتے دیکھے گئے جرنلسٹ مارے گئے۔ علمائ، ڈاکٹر، وکلا، تاجر سیاستدان اور کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھنے والوں کا خون بہتا چلا جا رہا ہے۔
دہشت گردی لسانی ہو یافرقہ وارانہ ہو یا اس نے شدت پسندی سے جنم لیا ہو۔ حکومت اور قوم کے متحد ہوئے بنا اس کا خاتمہ ممکن نہیں۔ حکومت جس پہ ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتی ہے وہ پھنکارتا ہوا اپنے محفوظ ٹھکانے میں پہنچ جاتا ہے۔ پولیس دہشت گرد کو اٹھاتی ہے تو بڑے افسر کا بیٹا غنڈے کے تھانے پہنچنے سے پہلے ہی اغوا ہو چکا ہوتا ہے۔ ڈان کے ڈیرے پر ریڈ سے قبل پولیس اور ایجنسیوں میں موجود اس کے مخبر اپنا کام کر چکے ہوتے ہیں۔ جج فیصلہ سنانے کے لئے گھر سے عدالت نہیں پہنچتا کہ بیٹی کے اغوا کی اطلاع اس کے اصولوں اور انصاف کے تقاضوں کا جنازہ اٹھا دیتی ہے۔ کوئی سر پھرا، وزیر، افسر یا جج مجرموں کی ماں جیسے مجرم پر شکنجہ کسنے کا عہد کرتا ہے۔ جس کے لئے پاکستان میں زمین تک محسوس ہوتی ہے تو حکام اس کی چوکھٹ پر سفری دستاویزات پیش کرکے اسے ملک ہی سے فرار کرا دیتے ہیں۔
حکومتی شخصیات دہشت گردوں پر قابو پانے کے عزم کا اظہار کرتی ہیں۔ ایسا کرنے والوں بھی کیا اعتبار کہ وہ کسی کے پروردہ نہیں ہیں۔ دہشت گردی کے حوالے سے ہر طبقے، حلقے، گروپ اور گروہ کی اپنی اپنی تحقیق، دلیل اور تاویل ہے۔ ہم لسانی، مذہبی، مسلکی اور سیاسی گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایسی تقسیم کی موجودگی میں قیامت تک بھی دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ یہ گروہ اور گروپ متحد ہو کر قوم بن جائیں تو دہشت گردوں، تخریب کاروں، شدت پسندوں اور مجرموں کا عرصہ حیات تنگ ہو جائے گا۔ ان کو کہیں چھپنے کی جگہ نہ ملے گی۔
بیرونی طاقتیں پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں ۔وہ اس” کارِخیر“ کے لئے استعمال تو پاکستانیوں ہی کو کرتی ہیں، استعمال ہونے والوں کی نشاندہی کرتے ہوئے لوگ خوف کھاتے ہیں۔ جس نے اطلاع دی، اس کی خیر نہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے تخریب کاروں تک پہنچیں نہ پہنچیں، دہشت گرد اطلاع دینے والے تک ضرور پہنچ جاتے ہیں۔ دہشت گردوں کو فنڈنگ یہیں سے ہوتی ہے۔ وہ سامانِ تخریب یہیں سے خریدتے اوراسمبل کرتے ہیں اور محفوظ بھی ہیں۔ کراچی کے بھتہ مافیا پر ہاتھ ڈالنے کے لئے بتائیے کس سائنس کی ضرورت ہے؟۔ حکومت، حکام اور عوام نے اگر تجاہلِ عارفانہ اور تغافلِ رندانہ کا رویہ ترک نہ کیا تو اس کی سزا نسل در نسل بھگتنا ہو گی۔ ہمیں جان بوجھ کر انجان اور غافل بننے کا رویہ ترک کرنا ہوگا۔ دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے کسی بھی سطح پر کمپرومائز نہیں ہونا چاہئے۔ حکومت زیرو ٹالرسنگ کی پالیسی اختیار کرے۔
 ایک بار حکمت عملی ترتیب دے کر پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھے۔ گروپوں اور گروہوں کو ایک قوم بنانے کی کوشش کی جائے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اندر سے مجرموں کے مخبروں کا صفایا اولین ترجیح ہو۔ ایماندار حکام اور جج حضرات کو مکمل تحفظ فراہم ہو تو معاملات درست سمت میں خود بخود چلتے جائیں گے۔ اٹلی کی طرح مجرموں کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے، اطلاع دینے اپریشن کرنے اور فیصلہ سنانے والے ہر فرد کی شناخت کو مخفی رکھا جائے تو دہشت گرد، تخریب کار اور مجرم بے بس ہو جائیں گے۔

مزیدخبریں